biography

شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددِ زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اخترصاحب رحمۃ اللہ علیہ

خلیفہ مجاز بیعت محی السنہ حضرت اقدس مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ

محبی و محبوبی،قرۃ عینی وقلبی،داعی عشق حقیقی،ماحی عشق مجازی،رومی ثانی،شیخ العرب والعجم،امام العاشقین،صدیق العصر ،مجدد زمانہ،عارف باللہ حضرت اقدس شیخناوجدناومولاناشاہ حکیم محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ ہندوستان کے ضلع پرتاب گڑھ (یوپی) سےسولہ میل کےفاصلہ پرایک چھوٹی سی بستی اٹھیہہ کےایک معززگھرانےمیں پیداہوئے۔

اللہ تعالیٰ نے شیخنا و جدنا و مولانا کو حسنِ باطنی کے ساتھ حسنِ ظاہری سے بھی خوب نوازا تھا۔ آپ دراز قد، مضبوط جسم، سرخ و سفید رنگت، مظہر جمالِ خداوندی کے حامل،اِذَارُؤُوْاذُکِرَ اللہُ کے مصداق، پُرنور حسین کتابی چہرے، ستواں ناک،عشق الٰہی سے معمور نرگسی آنکھیں جویادِ محبوب میں مسلسل بہتی رہتی تھیں، سفید نورانی داڑھی، کشادہ پیشانی اور چوڑے سینے کے مالک تھے،جب فراقِ محبوب کی تڑپ بڑھتی تو گہراسانس لیتے اس سے سینہ پھول جاتا ، ایسے لگتا کہ اگر سانس نہ لیتے تو شدتِ فراق سے سینہ پھٹ جاتا، چہرے پر جاذبیت اور کشش ایسی تھی کہ جو دیکھتا جی چاہتا کہ مسلسل دیکھتا رہے اور جوں جوں دیکھتا جاتا یہ کشش اور محبت بڑھتی جاتیں،مگر جاذبیت اور کشش کےساتھ رعب ایسا تھاکہ جب شیخناوجدناومولانا نظر اُٹھا کر دیکھتے تو دیکھنے والے کی نظریں خود بخود جھک جاتیں اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک لمحہ کے لیے بھی دیکھنا ممکن نہ تھا۔

اکثر سفید کلی والاکرتہ اور شلوار زیب تن فرماتے تھے، شلوار نصف ساق اور ٹخنے کے درمیان ہوتی تھی، سر پر چکن کی پانچ کلی ٹوپی پہنتے تھے،عیدالفطر، عیدالاضحیٰ کے موقع پر اور موسمِ سرما میں اپنے رومال سے بلاتکلف عمامہ باندھ لیتےتھے، سر تا پاؤں سفید لباس میں ملبوس نورانی جسم اور نورانی چہرے کے ساتھ ہزاروں کے مجمع میں نمایاں نظر آتے۔ پاؤں میں کھلے جوتے استعمال فرماتے تھے۔ موسمِ سرما میں سر پر گرم رومال اورکرتےکے اوپر گرم کپڑے کی ایک دراز قمیص اورپاؤں میں سفید جرابیں پہنتے تھے۔

آپ کا نام محمد اختر والد صاحب نے تجویز کیاتھا۔ اللہ ربّ العزت نے آپ کےالقابات کو آپ کے مشایخ کے قلوب میں القاء فرمادیاتھا،یہ القابات آپ کی حیات مبارکہ میں آپ کے نام کا حصہ بن چکے تھے۔ عمومی طور سے دنیا میں یہ طریقہ رائج ہے کہ مریدین، متعلقین اور محبین اپنے مشایخ کے نام کے ساتھ مختلف تعظیمی القابات لگاتے ہیں جو مشہورہوکر ان کے نام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ شیخنا و جدنا و مولانا کو اللہ ربّ العزت نے یہ اعزاز عطا فرمایا تھا کہ آپ کو آپ کے مشایخ نے’’شیخ العرب و العجم‘‘ ہونے کی بشارت دی،’’عارف باللہ‘‘ کاخطاب اور’’رومی ثانی‘‘ کالقب عطا فرمایا اوراکابر علماء،صلحاء اور مشایخ نے آپ کےمجدد ہونے کااعتراف کیا۔

آپ کو آپ کے مربّی اوّل حضرت مولاناشاہ محمداحمدصاحب پرتاب گڑھی نور اللہ مرقدہٗ نےسفرحرمین شریفین کے موقع پرحرم مکی میں ’’شیخ العرب والعجم‘‘ ہونے کی بشارت دی۔

آپ کے شیخ ثانی محی السنہ حضرت اقدس مولاناشاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی نور اللہ مرقدہٗ نےآپ کو’’عارف باللہ‘‘ کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ اس سلسلہ میں مولانا محمد عبد القوی صاحب لکھتے ہیں:’’حضرت محی السنہ رحمۃ اللہ علیہ بہت خوش تھے اور حکیم صاحب کی مجالس،قیام اور راحت کی برابر فکر فرماتے رہتے تھے۔ایک جگہ بیان تھا،اِنتظامیہ نے اس کے لیے اشتہار میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا نام دے دیا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نام کے ساتھ صرف ’’مولاناحکیم محمد اختر صاحب‘‘ لکھا۔ جب حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اس کا علم ہوا تو فوراً فرمایا کہ اُن کے نام کے ساتھ ’’عارف باللہ‘‘ کا لفظ بڑھادیا جائے۔‘‘

حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی نور اللہ مرقدہٗ کی خدمت میں ایک مرتبہ ایک شخص نے بدنظری کے مرض کی شکایت کی تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم حکیم محمد اختر کی کتابیں پڑھاکرو،وہ اس مسئلہ کے’’امام اور مجدد‘‘ہیں۔

اس فقیر نے کئی بارخانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال کراچی میں حضرت نواب عشرت علی خان قیصر صاحب مسترشد حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے سناکہ’’ہمارے حضرت حکیم صاحب مجدد غضِ بصر ہیں۔‘‘دیگر مشایخ اور علماء بھی شیخنا و جدنا و مولانا کے مجدد ہونے کی تائید فرماتے تھے۔

یہ فقیر عرض کرتا ہے کہ بدنظری اور عشق مجازی کا مہلک مرض جس شدت کے ساتھ ہمارے اس دور میں ظاہراور عام ہواہے ،اتنی شدت سے پہلے کبھی نہ ہواتھا،روئے زمین پر اس فقیر کے مطالعہ کے مطابق کوئی گناہ اور فتنہ اتناعام نہیں ہواکہ جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہواور روئے زمین کا کوئی حصہ اس سے خالی نہ ہو،اس سے پہلے ہرفتنہ اورگناہ کسی علاقے کے ساتھ مخصوص ہوتا تھا۔ ذرائع ابلاغ، انٹرنیٹ،سوشل میڈیا اورخصوصاً موبائل نے بدنظری اورعشق مجازی کے اسباب و مواقع کو اس قدر عام کردیا ہے کہ حق تعالیٰ کی توفیق خاص اورعطا فرمودہ ہمت کے بغیر اس سے بچنا ناممکن ہے، اور یہ قوت اور ہمت صرف اہل اللہ کی صحبت اور مجالست ہی سے ملتی ہے،اس دور میں بدنظری اور عشق مجازی کی تردید وتطہیر میں جتنا کام اللہ تعالیٰ نے شیخناوجدنا ومولاناسے لیا بلاشبہ وہ کار تجدید اور مجددانہ شان کا حامل ہے ۔

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے’’رومی ثانی‘‘ کا لقب عطا فرمایا تھا۔شیخنا و جدنا و مولانا اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تشریف لے گئے اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں’’معارفِ مثنوی‘‘پیش کی،جس میں مثنویِ اختر کے چند اشعار پڑھ کر حضرت بنوری نے فرمایا کہ’’لَا فَرَقَ بَیْنَکَ وَ بَیْنَ مَوْلَانَا رُوْمٍ‘‘ یعنی آپ میں اور مولانا رومی میں کوئی فرق نہیں۔اورمولانا بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقریظ میں لکھا:’’برادر ِمحترم جناب مولانا حکیم محمد اختر صاحب کی تالیف لطیف’’معارفِ مثنوی‘‘پڑھ کر موصوف سے اتنی عقیدت ہوئی کہ جس کا مجھے تصوّر بھی نہ ہوسکتا تھا،فارسی واردو میں قدرتِ شعر،حسن ذوق،پاکیزگی خیالات دردِ دل کا بہترین مرقع ہے۔‘‘

حضرت علامہ محی الدین زاہدی قاسمی ایرانی رحمۃ اللہ علیہ نے شیخنا و جدنا و مولانا کی مثنوی پر تحریر فرمایا کہ’’ہر کہ مثنوی اختر بخواند او را مثنویِ مولانا روم پندارد،حقّاکہ مولاناحکیم محمداخترصاحب رومیِ عصر اند‘‘یعنی’’جو بھی مثنوی اختر کی پڑھتا ہے اس کو مثنوی مولانا روم سمجھتا ہے،بے شک مولانا حکیم محمد اختر صاحب اس زمانے کے رومی ہیں۔‘‘

شیخنا و جدنا ومولانا’’ترجمۃ المصنف‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:

’’والد صاحب کا قیام بہ سلسلۂ ملازمت ضلع سلطان پور میں تھا،محلہ کی مسجد کے امام حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ و مجاز بیعت حافظ ابو البرکات صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے ۔احقر کو مسجد کی محبت میں اس کی خاک اس وقت بھی اچھی معلوم ہوتی اور حضرت حافظ صاحب مجھے بہت اچھے معلوم ہوتے، کچھ اور ہوش سنبھالنے کے بعد مجھے نیک بندوں کی محبت اور ان کی وضع قطع سے بہت خوشی ہوتی،ہرمولوی اورحافظ کو دیر تک محبت سے دیکھا کرتا۔ جب احقر ۱۳ سال کا ہوا اسی وقت سے گھر سے دور جنگل کی مسجد میں جا کر عبادت کیا کرتا۔اس وقت والد صاحب ضلع سلطان پور کی ایک تحصیل میں ملازم تھے۔ قصبہ کی مسجد کے علاوہ ایک مسجد قصبہ کے باہر تھی۔ وہاں سے کچھ فاصلے پرچند گھر آباد تھے جن کو احقر نے نماز کی دعوت دی اور حق تعالیٰ نے ان کو نمازی بنادیا، پھراس مسجد میں اذان اور جماعت بھی ہونے لگی۔ پھر بھی بعض وقت اس مسجد سے دور دور تک کوئی انسان نظر نہ آتا۔ احقر کا اسی مسجد میں خوب دل لگتا اور لوگ احقر کو بطور مزاح اس مسجد کے نمازیوں کا پیر کہنے لگے ۔

رمضان شریف میں جب سحری کھا کر اسی وقت مسجد کونکل جاتا تو والدہ صاحبہ میری صغر سنی کی وجہ سے پریشان ہوتیں اور مجھے منع کرتیں کہ اتنی رات کو اکیلے مت جایا کرو۔ احقر کے ان حالات کو دیکھ کر والد صاحب کے دوستوں نے احقر کو فقیر اور درویش کہنا شروع کیا اور والد صاحب نے بھی بجائے نام لینے کے مولوی صاحب کہنا شروع کیا۔اسی دور نابالغی ہی میں مثنوی شریف سے شغف شروع ہوا اورفارسی کی تعلیم مثنوی شریف سمجھنے کے لیےشروع کردی اور مثنوی شریف کے کچھ اشعار پڑھ پڑھ کر رویا کرتا،کبھی صرف دل اندر اندر روتا اور کبھی آنکھیں بھی رونے میں ہمراہ ہوجاتیں۔

جب احقر ۱۳ سال کا ہو کر چودہویں سال میں داخل ہوا تو قلب خدائے تعالیٰ کے لیےبے چین رہنے لگا۔ اچھی آواز سے اشعار سننے کا شوق ہوتا اور اس غرض سے اپنے استاد سے درخواست کرتا تو موصوف قرآن شریف پڑھانے کے بعد بڑی ہی دردناک آواز سے مثنوی پڑھ کر میرے قلب کو تڑپا دیتے اور احقر ہی کے یہاں کھانا بھی کھایا کرتے اور احقر پر بہت ہی شفقت فرماتے ۔ احقر ایامِ طفولیت ہی سے اپنی روح میں حق تعالیٰ کی طرف ایک خاص جذب محسوس کرتا تھا اور دل کو دنیا سے اچاٹ پاتا تھا۔‘‘

ترجمۃ المصنف میں شیخنا و جدنا و مولانا تحریر فرماتے ہیں:

’’درجہ ہفتم پاس کرنے کے بعد والد صاحب کا تبادلہ پھر ضلع سلطان پور ہوگیا اور وہاں احقر نے جامع مسجد کے خطیب مولانا قاری صدیق صاحب سے فارسی شروع کی،کریما مکمل اور گلستاں کے کچھ باب پڑھ کر احقر نے پھر دیوبند جانے کی اجازت چاہی مگر والد صاحب نے میری مرضی کے خلاف طبیہ کالج الٰہ آباد میں داخل کردیا اور فرمایا طب سے فارغ ہوکر عربی شروع کرنا بڑی مشکل سے پھر یہ دن گزارنے پڑے۔

شیخناوجدنا ومولانا نے فرمایا طبیہ کالج میں داخلہ اس وقت مجھے بہت گراں گزرا تھا لیکن میرے والد صاحب نے فرمایا تھا کہ میں تمہیں طب کی تعلیم اس لیے دے رہا ہوں تا کہ دین تمہارا ذریعۂ معاش نہ ہو اور دین کی خدمت تم صرف اﷲ کے لیے کرو۔حضرت فرماتے ہیں کہ آج والد صاحب کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ واقعی اس سے بہت فائدہ ہوا کہ آج کوئی اس قسم کا الزام نہیں لگا سکتا کیوں کہ میرا اپنا دواخانہ اور کتب خانہ ہے،طب پڑھنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے یہ اندازہ ہوگیا کہ اپنے احباب کو اس قدر وظیفہ و ذکر بتایا جائے کہ جس سے وہ غیر معتدل نہ ہوں کیوں کہ آج کل اکثر لوگ اعصابی دباؤ اور ڈپریشن میں مبتلا ہیں اس لیے مختصر ذکر بتاتا ہوں کیوں کہ ولایت کثرتِ ذکر پر نہیں گناہوں سے بچنے پر موقوف ہے،اس سے الحمد ﷲ احباب کو روحانی وجسمانی دونوں فائدے ہیں۔‘‘

شیخنا و جدنا و مولانا نے فرمایاکہ ابھی میں نابالغ ہی تھا ۱۲ سال کی عمر تھی تو معلوم ہوا کہ مسجد کے امام صاحب جن کا نام حافظ ابو البرکات صاحب تھا جو بچپن میں دعا پڑھ کر دم کیا کرتے تھے وہ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃاﷲ علیہ کے خلیفہ مجازِ بیعت ہیں،ان کی مجھے بہت محبت محسوس ہوتی تھی اور دل میں خیال آتا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں، ایک دن ان سے جا کر عرض کیا کہ مجھے بیعت کرلیجیے،شیخنا و جدنا و مولانا فرماتے ہیں کہ اس وقت میں مڈل میں پڑھ رہا تھا لیکن حافظ صاحب کو مجھ میں نہ جانے کیا نظر آیا کہ فرمایا کہ حضرت حکیم الامت نے مجھے عوام کے لیے مجازِ بیعت بنایا ہے اور آپ عوام میں نہیں ہیں، اور فرمایا کہ آپ کو کوئی خاص بندہ بیعت کرے گا۔

الٰہ آباد میں دورانِ تعلیم شیخنا و جدنا و مولانا اپنی پھوپھی کے ہاں حسن منزل میں رہتے تھے،شیخناوجدناومولاناکوحضرت اقدس مولاناشاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی نور اللہ مرقدہٗ کے بارے میں علم ہوا جواپنے وقت کے سب سے اونچی نسبت والے سلسلۂنقشبندیہ کے بزرگ اور حضرتِ اقدس مولانا شاہ فضلِ رحمٰن صاحب گنج مراد آبادی نور اللہ مرقدہٗ کے سلسلہ کے خلیفہ تھے اور بڑے صاحبِ نسبت بزرگ تھے اور سراپا محبت تھے۔ مولانا کو دیکھ کر بہت محبت ومناسبت محسوس ہوئی،مولانا سراپا محبت وجمال تھے اور سینہ میں درد بھرا دل رکھتے تھے،طبیہ کالج سے فارغ ہوکر روزانہ شام پانچ بجے سے رات گیارہ بجے تک مولانا شاہ محمد احمد صاحب نور اللہ مرقدہٗ کی خدمت میں رہتے، پندرہ سال کی عمر سے اٹھارہ سال کی عمر تک تین سال مسلسل مولاناشاہ محمد احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں رہے۔ شیخنا و جدنا و مولانا فرماتے ہیں کہ میں تو اﷲ والوں کی گود میں بالغ ہوا ہوں،کالج سے فارغ ہو کر میرے ساتھی شام کو دریائے جمنا پر عورتوں کو نہاتا ہوا دیکھنے جاتے تھے اور میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب نور اللہ مرقدہٗ کی خدمت میں جاتا تھا۔مولانا بھی شیخنا و جدنا و مولانا سے بہت ہی شفقت اور محبت فرماتے تھے۔

ترجمۃ المصنف میں شیخنا و جدنا و مولانا تحریر فرماتے ہیں:

’’الٰہ آباد میں ایک دوست نے مجھے حضرت اقدس مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری نور اللہ مرقدہٗ کے متعلق چشم دید کیف و دیوانگی اور وارفتگی کا کچھ اجمالی خاکہ بتایا جس سے مجھے اُمید ہوگئی کہ میری مناسبت وہیں ہوگی۔ حق تعالیٰ نے غیب سے اعانت فرمائی اور احقر نے حضرت اقدس مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری نور اللہ مرقدہٗ سے مکاتبت کا سلسلہ شروع کردیا اور حضرت ہی کو اپنا مرشد منتخب کرلیا۔‘‘میرے مرشدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آستاں سے ایسا چپکایا کہ آخری سانس تک تابِ جدائی نہ لاسکا اور تقریباً سولہ ۱۶ برس دن رات کی صحبت کا شرف حاصل رہا اور اختر پر یہ حق تعالیٰ کا انعامِ عظیم اور یہی میرا حاصلِ مراد ہے۔

شیخنا وجدنا ومولانا عارف باﷲ مجددِ زمانہ شیخ العرب والعجم حضرت مرشدنا و مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے درس نظامی کی تعلیم اپنے شیخ کے مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم ،سرائے میر،اعظم گڑھ (قائم شدہ ۱۳۴۹ھ) میں حاصل کی اور اتنی محنت اور جانفشانی سے پڑھا کہ درس نظامی کے آٹھ سالہ نصاب کی چار سا ل میں تکمیل کی۔ شیخنا وجدنا ومولانا کےبعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ حدیث کی کتابیں دارالعلوم دیوبند میں پڑھنی چاہیے لیکن شیخنا وجدنا ومولانا نےانکارفرمادیاکہ وہاں مجھے شیخ کی صحبت نہیں ملے گی جوعلم کی روح ہے اور میرا مقصودہے، علم میرے نزدیک درجہ ثانوی میں ہے اور اللہ کی محبت درجہ اولیٰ میں ہے، میں علم اس لیے حاصل کررہا ہوں کہ مجھے معلوم ہوجائے کہ کن باتوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں تاکہ وہ کروں اور کن باتوں سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں تاکہ ان سے بچوں،اور علم پر عمل کی توفیق صحبتِ شیخ پر موقوف ہے،اس لیے میں حضرت کو چھوڑ کر دیوبند نہیں جاؤں گا۔ شیخناوجدناومولانا کے ساتھیوں نے مذاق اڑایا کہ ہماری سندوں میں فاضل دیو بند لکھا ہوگا اور آپ کی سند میں فاضل بیت العلوم لکھا ہوگا اور بیت العلوم کو کون جانتا ہے۔ شیخنا وجدنا ومولانا نے فرمایا کہ فاضل دیوبند کہلانے کے لیے علم حاصل نہیں کررہا ہوں،اللہ کی محبت سیکھنے کے لیے کررہا ہوں۔ شیخناوجدناومولانا کی اس طلب و اخلاص و فنائیت کی برکت ہے کہ آج بڑے بڑے فضلاء دیوبندشیخناوجدناومولانا کے حلقۂ ارادت میں ہیں اور آپ کے ارشادات کو نوٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت والاکی زبان مبارک سے جو علوم ہم سنتے ہیں وہ نہ ہم نے کہیں پڑھے نہ سنے۔

اللہ تعالیٰ نے شیخناوجدناومولانا کے علم میں تقویٰ، اساتذہ کی خدمت اور ان کے ادب کی وجہ سے بڑی برکت رکھی تھی،جن علوم کی تحصیل پر اہلِ علم ایک طویل وقت لگاتے ہیں وہ شیخناوجدناومولانانے بہت کم وقت میں حاصل کرلیے،ایک دفعہ فرمایا کہ ہمارے ایک فارسی کے استاد تھے جو بہت متقی اور اللہ والے تھے (احقر کو بھی سفر ہندوستان کے موقع پر ان کی زیارت نصیب ہوئی تھی)ان کی تفہیم اتنی اچھی نہیں تھی، طلباء کو مطمئن نہیں کرپاتے تھے لیکن میں نے فارسی ان ہی سے پڑھی، جب میں نے مثنوی شریف کی شرح لکھی اور سفرہندوستان کے موقع پر انہیں پیش کی تو انہوں نے پوچھا کہ حکیم اختر !آپ نے فارسی کسی اور سے بھی پڑھی تھی؟ میں نے عرض کیا نہیں، حضرت جو آپ سے پڑھی اسی کی برکت ہے۔ وہ خوشی سے رونے لگے۔

شیخنا وجدنا ومولانا نے بخاری شریف کے چند پارے اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری نور اللہ مرقدہٗ سے پڑھے جو صرف ایک واسطہ سے حضرت گنگوہی نوراللہ مرقدہٗ کے شاگرد ہیں یعنی حضرت شیخ پھولپوری نوراللہ مرقدہٗ کے استاد ِحدیث مولانا ماجد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت قطب العالم مولانا گنگوہی نور اللہ مرقدہٗ کے شاگرد ہیں۔ اس طرح شیخناوجدناومولانا صرف دو واسطوں سے حضرت گنگوہی نوراللہ مرقدہٗ کے شاگرد ہیں۔ شیخناوجدنا ومولانافرماتے تھے کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور اللہ مرقدہٗ سے اتنی قریبی سند اس زمانے میں شاید ہی کسی کو حاصل ہو۔

شیخناوجدناومولاناکادرسِ مثنوی تو بہت مشہورہےلیکن شیخناوجدناومولانا خانقاہ امدادیہ اشرفیہ میں کئی سال تک تخصص فی التفسیر کروایا کرتے تھے،ان میں زیادہ تعداد بیرون کے طلباء کی تھی جو آج بھی اپنے اپنے ملکوں میں علمی اور روحانی خدمات میں مشغول ہیں ،اسی علمی ذوق کی وجہ سے آخری سفر عمرہ میں سنتِ معلّمیت اداکرنے کی نیت سے مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ علماء کو سبق پڑھایا جو آج بھی محفوظ ہے۔

حضرت پھولپوری کے وصال کے بعد حسب وصیت شیخنا و جدنا و مولانا نے حضرت مولانا شاہ ابرار الحق حقی صاحب نور اللہ مرقدہٗ سے اصلاحی تعلق قائم کرلیا۔ ترجمۃ المصنف میں شیخنا و جدنا و مولانا تحریر فرماتے ہیں:

خواب دیکھا کہ حضرت مرشد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم سے ارشاد فرمایا کہ آپ اختر کو اجازت دے دیں۔اس خواب کی تعبیر کا ظہور اس طرح ہوا کہ حضرت والا نے آخری وصیت فرمائی تھی کہ ہمارے متعلقین کو لکھ دو کہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم سے اصلاحی تعلق کرلیں۔ حضرت اقدس کے وصال کے بعد حسب وصیت احقر نے بھی تعلقِ اصلاحی حضرت مولانا سے کرلیا ۔ دوسال کے بعد حضرت کو حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ۔ احقر کو بھی طلب کیا لیکن حاضر ی نہ ہوسکی ۔ ایک دن مکہ سے احقر کے نام رجسٹری وصول ہوئی جس کی نقل یہ ہے:

والانامہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم

خلیفہ ومجازِ بیعت حضرت اقدس حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد

بنام:حکیم محمد اختر صاحب

توکلاً علی اللہ تعالیٰ آپ کو بیعت وتلقین کی اجازت دیتا ہوں، اگر کوئی طالبِ اصلاح آپ سے رجوع کرے تو انکار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سے مخلوق کو استفادہ کی توفیق بخشیں اور اس کو قبول فرمادیں۔

والسلام،حررہ بقلم ابرار الحق عفا اللہ عنہ،یوم الجمعۃ قبیل المغرب،فی المسجد الحرام ما بین باب السلام و بیت اللہ تعالیٰ، مکۃ المکرمۃ،18 محرم الحرام 1387ھ

اس کو پڑھتے ہی احقر پر گریہ طاری ہوگیا اور حق تعالیٰ سے عرض کیا کہ اس ناکارہ پر بدون استحقاق یہ کرم عظیم ؎

مجھ پہ یہ لطف فراواں میں تو اس قابل نہ تھا

اس کے بعد حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے بھی شیخنا و جدنا ومولانا کو سلسلۂ نقشبندیہ میں خلافت سے سر فراز فرمایا۔

حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری نور اللہ مرقدہٗ کی والہانہ عبادت، کثرتِ آہ فغاں ونعرہ ہائے عشق،حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی کی محبت ومعرفت،درد بھرے اشعار اور حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کی احیاء سنت، اصلاحِ منکرات کاجذبہ اور اتباعِ سنّت، تقویٰ اگر تینوں کو جمع کیا جائے تو شیخناوجدناومولانا کی شخصیت بن جاتی ہے۔حضرت والاکو اللہ تعالیٰ نے اپنے تینوں مشایخ کے فیض کو عالمگیر بنانے کی سعادت سے سرفراز فرمایا تھا۔

شیخنا وجدنا ومولانا نے اپنی زندگی میں بارہاں ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ شانہٗ کی ایک نعمت کو بطور شکر تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کرتا ہوں اور فخر اور جاہ سے پناہ لیتا ہوں، جب میں بالغ ہوا تو حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی حیات تھے، اُن کی صحبت میں تین سال رہا، اس کے بعد حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری سے بیعت ہوا تو اُن کی صحبت میں سترہ سال رہا، اُن کے اِنتقال کے بعد حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی دامت برکاتہم کی صحبت میں ابھی تک ہوں، پچاس پچاس دن اُن کی صحبت میں رہا ہوں،اب بھی با قاعدہ خط وکتابت کرتا ہوں، ہر ہفتہ ایک خط بھیجتا ہوں۔ مجھ کو تین دریاؤں کا پانی ملا ہے، دریائے مولانا محمد احمد صاحب، دریائے مولانا شاہ عبد الغنی صاحب، دریائے مولانا ہردوئی دامت برکاتہم۔ جب دریا ملتے ہیں تو پاٹ چوڑا ہوجاتا ہے، سب میرے بزرگوں کا فیض ہے، میرا کوئی کمال نہیں، بس اللہ کی رحمت کاسہارا ہے، اپنے اعمال کا کوئی سہارا نہیں ہے، اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ بخش دیا جاؤں گا، اپنے عمل سے بخشش نہیں ہوگی، یہ تحدیثِ نعمت ہے ’’ وَلَا فَخْرَ یَارَبِّیْ ‘‘ کوئی فخر کی بات نہیں ،مگر یہ اللہ کا فضل ہے۔ امید ہے کہ اگر عالم میں آپ تلاش کریں تو اتنی صحبت پانے والے کم ملیں گے۔ کوئی چھ مہینہ، کوئی سال بھر، کوئی پانچ سال، مگر تینوں بزرگوں کی صحبت ملا کر بہت عرصہ ہوجاتا ہے ،شیخ کی نعمت بڑی نعمت ہے‘‘۔

حضرت مولاناشاہ عبد الغنی صاحب نوراللہ مرقدہٗ اپنے وطن پھولپور تشریف لے جاتے تو شیخناوجدنا ومولانا آپ کی ملاقات کے لیے پھولپور حاضر ہوتے اور وہاں قیام فرماتے تو مولانا گھر سے اپنا بستر لے کر مہمان خانے میں تشریف لے آتے اور فرماتے کہ یہاں بڑے بڑے علماء آتے ہیں میں کسی کے لیے اپنا بستر باہر نہیں لاتا لیکن صرف آپ کے لیے گھر سے باہر آکر سوتا ہوں۔

ہندوستان الٰہ آباد سے ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد احمد صاحب نے کراچی خط بھیجا تھا جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھ سے جیسی محبت کرتے ہیں دنیا میں ایسی محبت مجھ سے کوئی نہیں کرتا۔

ہردوئی میں قیام کے دوران حضرت مولانا ابرار الحق صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے شیخناوجدنا ومولاناکو وعظ کہنے کا حکم دیا، حضرت مفتی محمودالحسن صاحب بھی مجلس میں موجود تھے شیخناوجدنا ومولانا نے فرمایا کہ مفتی صاحب کی موجودگی میں ان کے علم کے اکرام کی وجہ سے مجھے جھجھک ہورہی تھی، میں نے مفتی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت آپ اپنے کمرے میں تشریف لے جا کر آرام فرمائیں،تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ اچھا آپ مجھے اپنے وعظ سے محروم کرنا چاہتے ہیں!غرض شیخناوجدنا ومولانا نے بیان فرمایا جس سے تمام سامعین پر وجد طاری تھا اور اکابر بھی اشکبار تھے۔ بیان کے بعد حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نوراللہ مرقدہٗ نے شیخناوجدنا ومولاناکو سینہ سے لگالیا اور فرمایا کہ اﷲ کسی کو زبان دیتا ہے تو دل نہیں دیتا، کسی کو دل دیتا ہے تو زبان نہیں دیتا، آپ کو مبارک ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دل اور زبان دونوں عطا فرمائے ہیں۔

ایک سفر میں شیخنا وجدنا ومولانا جب ہردوئی تشریف لے گئے تو حضرت مولانا محمد احمد صاحب سے شیخنا وجدنا ومولانا کے تعلق کی وجہ سے حضرت والا ہردوئی نور اللہ مرقدہٗ نے حکم دیا کہ الٰہ آباد میں مولانا محمد احمد صاحب آپ کے منتظر ہیں جا کر ان سے مل آئیے، مولانا نے وہاں شیخنا وجدنا ومولانا کا بیان کرایا، بیان کے بعد فرمایا کہ روح المعانی کے حوالوں سے توبہت سے علماء بیان کرتے ہیں لیکن آپ جو روح المعانی سے بیان کرتے ہیں اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے، اﷲ تعالیٰ نے جو درد آپ کو عطا فرمایا ہے وہ روح المعانی کی لذت بڑھا دیتا ہے۔

ترجمۃ المصنف میں شیخنا و جدنا و مولانا تحریر فرماتے ہیں:

’’جب میں سولہ سال کے بعد ہردوئی گیا میرے وہاں پہنچنے کی اطلاع جب حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ہوئی تو حالاں کہ حضرت مفتی صاحب کی آنکھوں کا کلکتے میں آپریشن ہوا تھا اور ڈاکٹروں نے سفر سے منع کیا تھا مگر حضرت پھر بھی تشریف لے آئے اور میرے لیے فرمایا کہ یہ میرا خاص دوست ہے کہ سولہ سال بعد آیا ہے،کچھ بھی ہو میں ضرور ملنے جاؤں گا۔تو کلکتے سے حضرت تشریف لائے حالاں کہ آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی، میں نے کہاکہ حضرت نے اختر پر شفقت فرمائی تو فرمایا کہ تم اختر نہیں ہو، اختر تو ستارہ ہوتا ہے تم تو شمس ہو۔

مکہ معظمہ میں ایک بار حج کے موقع پر حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ساتھ ہوگیا،حج کے بعد اپنے حجرہ میں حضرت مولانا کی طبیعت کچھ مضمحل تھی، شیخناوجدنا ومولانا سے فرمایا کہ کچھ سنائیے،شیخناوجدنا ومولانا نے مثنوی کے اشعار کی تشریح فرمائی تو مولانا شاہ محمد احمد صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میرے سر میں شدید درد تھا آپ کی تقریر سے بالکل جاتا رہا اور طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی۔

شیخنا و جدنا و مولانا نے اپنے مشایخ سے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت و محبت، دردِ دل اور آہ و فغاں سیکھی تھی اس کو نشر کرنے کے لیے اپنی حیات مبارکہ کو وقف فرما دیا تھا، چناں چہ شیخنا و جدنا و مولانا کو ۱۸ محرم الحرام ۱۳۸۷ھ مطابق ۲۸اپریل ۱۹۶۷ء بروز جمعہ کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت اور اجازتِ بیعت سے سرفراز فرمایاتھا۔ اس کے بعدشیخناوجدناومولانا نے اپنی رہایش گاہ ۴۔ جی ۱/۲ ناظم آبادکراچی سے احیاء السنہ، اصلاحِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کے عالمگیر کام کا آغاز فرمایا۔ سالکینِ طریقت اور اہلِ محبت کی تعداد میں مسلسل اضافہ کے باعث جگہ ناکافی ہوگئی۔ شیخناوجدناومولاناکے شیخ ثانی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی نے ہردوئی سےاپنے والا نامہ میں تحریر فرمایا کہ دل میں یوں آتا ہے کہ آپ اپنا مکان فروخت کر کے کسی دوسری جگہ زمین لیں اور وہاں خانقاہ بنائیں۔اپنے شیخ کے مشورہ پر شیخنا وجدناومولانانے ۵دسمبر۱۹۷۷ء کو ۶۰۰گزکاایک پلاٹ گلشن اقبال بلاک ۲ میں خریدا، ۱۰جون ۱۹۷۸ء کو خانقاہ اور مکان کی تعمیر شروع کی اور ۱۲ربیع الاوّل ۱۴۰۰ھ مطابق ۳۱جنوری ۱۹۸۰ء بروز جمعرات کوخانقاہ اورمکان کی تعمیر کا ابتدائی حصہ مکمل ہونے پر گلشن اقبال منتقل ہوگئے ،خانقاہ میں قرآن پاک کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم فرمایا جس میں بچے قرآن پاک حفظ وناظرہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔۲۰اگست ۱۹۸۰ء کواس پلاٹ سے متصل ۷۰۰گزکادوسراپلاٹ مسجداور مدرسہ کی نیت سے خریدا ،۲۳رمضان ۱۴۰۳ھ مطابق۵جولائی ۱۹۸۳ء بروزمنگل کومسجدِاشرف کا سنگ بنیاد حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی نے رکھا،نہایت طویل جدوجہد اور صبرآزما مراحل کے بعد مسجدِاشرف کی تعمیر مکمل ہوئی۔

الحمدللہ آج یہ خانقاہ پورے عالم کا مرکز ہے،جہاں متوسلین و طالبین خصوصاً بڑے بڑے اہلِ علم افریقہ، امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، برما، بنگلہ دیش، ہندوستان، افغانستان، ایران، کینیڈا، سعودی عرب اور عرب امارت وغیرہ اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے اصلاح و تزکیہ کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ خانقاہ کے ایک چھوٹے سے حجرہ میں شیخناوجدناومولاناکا قیام تھا، اسی حجرے سے سارے عالم میں دین نشرہوا۔ الحمدللہ آج شیخناوجدناومولاناکی نسبت سے مختلف ممالک کے مختلف شہروں میں سینکڑوں خانقاہیں قائم ہیں جہاں سے دین کی اشاعت اور اصلاح و تزکیہ کا کام ہورہا ہے۔

شیخناوجدناومولانا نے خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال میں حفظ وناظرہ کا ایک چھوٹا سا مکتب قائم کیاتھا۔ شیخنا و جدناو مولاناکے اِخلاص کی برکت سے کام بڑھتا گیا، پھر اسی جگہ پر درسِ نظامی کی تعلیم بھی شروع کردی گئی، طلباء کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مدرسے کی عمارت میں بھی توسیع ہوتی گئی پھر ایک وقت ایسا آیا کہ شعبۂ حفظ کو مکمل طور پرمعظم ٹیرس (مسجدِ اشرف کے سامنے موجود عمارت)میں منتقل کردیاگیا۔ اور طالبات کی تعلیم وتربیت کے لیے چار سالہ دینی تعلیم کا گلشن حسن (مسجدِ اشرف کے سامنے موجود عمارت) میں آغاز کردیا گیا۔

جب گلشن اقبال میں طلباء کے لیے مزید داخلوں کی گنجایش نہ رہی، تو حضرت ہردوئی کی منشاء سے ایک وسیع قطعۂ اراضی پر مدرسہ کی عمارت قائم کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا۔چناں چہ بڑی کوششوں کے بعد شیخناوجدناومولانا نے ۴۰۰۰ گز کے پلاٹ پر جامعہ اشرف المدارس، جبکہ ایک خانقاہ اور مسجد علیحدہ علیحدہ پلاٹوں پر سندھ بلوچ سوسائٹی ، گلستان جوہر میں ۱۹۹۴ء میں قائم فرمائی۔

۱- تقویٰ اور ورع پر مداومت

علمی نکات اور فنی تحقیقات کے شناور شاید اب بھی ہوں اور آیندہ بھی موجود رہیں، مگر دین کا ٹھیٹھ مزاج و مزاق، ورع وتقویٰ، اخلاص وللہیت، تواضع وانکساری اور قناعت وسادگی کا ایک خاص معیار ومنفرد انداز جو کتابوں سے نہیں، بلکہ اہل اللہ کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے وہ اب خال خال ہی نظر آتاہے ۔شیخنا وجد نا ومولانا اس کی تصویر مجسم تھے اور اپنی عظیم وبابرکت ذات سے دنیا والوں کو تقویٰ وطہارت، ہدایت واستقامت، حیا وپاک دامنی، توکل واستغنا، کی عظیم دولت عطا کی۔ان کے زہدو تقویٰ، ورع اور اتباعِ سنت کی وجہ سے جملہ بزرگانِ دین اُن سےمحبت اور اُن کی قدر کرتے تھے۔ان کی پوری زندگی یہی فکرتھی کہ’’اُمت ِمحمدیہ کا ہر فرد اُمت ِدعوت سے اُمت ِاجابت کے زُمرے میں آجائے اور نہ صرف یہ کہ ادنیٰ درجے کا ولی اللہ بلکہ اولیاء صدیقین کی آخری سرحد تک پہنچ کر اپنے خالق حقیقی سے ملے اور اس حیاتِ دو روزہ میں ایک سانس بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کرے، تمام منکرات سے عموماً اور بد نظری کے گناہ سے خصوصاً بچے۔ ‘‘حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے نیک بندوں کے دلوں میں وہ باتیں القاء فرماتے ہیں جن کی لوگوں کو سب سے زیادہ ضرورت ہے ؎

وہ لمحہ حیات جو تجھ پر فدا ہوا

اس حاصلِ حیات پہ اختر فدا ہوا

شیخناوجدنا ومولاناتقویٰ کے جس مقامِ عالی پر فائز تھے اس کی چند مثالیں:

۱) شیخناوجدنا ومولانا کا چوں کہ بچپن تھا اس لیے یہ مسئلہ معلوم نہیں تھا کہ نابالغ کی اقتداء میں نماز نہیں ہوتی اس لیے ان لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے کیوں کہ وہ لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ ۲۰۰۰ء میں جب شیخناوجدنا ومولانا کو فالج کا حملہ ہوا تو ایک دن خیال ہوا کہ اس زمانے میں جو نمازیں پڑھائی تھیں تو نابالغ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی نماز واجب الاعادہ ہے لہٰذا شیخناوجدنا ومولانا نے سلطان پور کی اس مسجد کے امام صاحب کو رجسٹرڈ خط بھیجا کہ پچاس سال پہلے جب میں نابالغ تھا تو مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے وہاں کے نمازیوں کی امامت کی ہے ان کی وہ نمازیں واجب الاعادہ ہیں لہٰذا ان میں سے اگر کوئی نمازی زندہ ہو تو اس کو بتا دیں کہ اس زمانے کی نمازوں کو دہرا لیں۔ دس پندرہ دن بعد اسی مضمون کا دوسرا خط بھی رجسٹری سے روانہ فرمایا۔ اب نہ معلوم وہ امام صاحب اور وہ لوگ زندہ بھی تھے یا نہیں،لیکن جتنا اختیار تھا وہ شیخنا و جدنا و مولانانے استعمال فرمایا۔

۲) افریقہ میں سمندر کے کنارے اکثر لوگ نیم برہنہ لباس میں سن باتھ لیتے ہیں، دور کنارے پر ایسا شبہ ہوا کہ شاید وہاں یہ لوگ ہوں تو شیخناوجدنا ومولانا نے متنبہ فرمایا کہ ادھر نہ دیکھو کیوں کہ ناف سے گھٹنے تک ستر ہے، جس کا دیکھنا حرام ہے، چاہے مسلمان ہو یا کافر۔ بنگلہ دیش میں مچھلی والوں کو مچھلیاں پکڑنے کے لیے بلایا گیا جو کافر تھے، وہ لنگوٹ باندھے ہوئے مچھلیاں پکڑ رہے تھے، اور وہاں کے سب علماء بھی دیکھ رہے تھے، میں نے کہا کہ یہ کافر تو ستر چھپانے کے مکلف نہیں ہیں، ٹانگ کھولنا اُن کے لیے گناہ نہیں ہے، کیوں کہ کافر ہیں، اور ایمان ہی نہیں لائے ہیں، تو جب کُل نہیں تو جُز کا کیا تلاش کرنا، لیکن مسلمان کا ان کے کھلے ہوئے ستر کا دیکھنا جائز نہیں ہے، تو کہنے لگے کہ پھر کیا کریں کیوں کہ یہی لوگ تو مچھلیوں کا شکار جانتے ہیں، میں نے کہا کہ ان کو ایک ایک لنگی تھوڑی دیر کے لیے دے دو کہ ناف سے گھٹنے تک چھپا لیں جب شکار کرچکیں تو اپنی لنگی واپس لے لو، اگر توفیق ہو تو ان کو ہدیہ کردو ،غریب ہیں اس طرح مسلمانوں سے قریب ہوجائیں گے۔ اس بات پر خیال آیا کہ نومسلموں کی تالیفِ قلب کے لیے یعنی ان کا دل خوش کرنے کے لیے ان کو ہدیہ دینا، خیریت پوچھنا، اُن سے محبت کرنا سب عبادت ہے وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ جو نیا نیا اسلام لائے اس کی تالیفِ قلب کرو، اس کا دل خوش کرو، تاکہ وہ اسلام سے اور قریب ہوجائے۔

۳) ایک نوجوان جس کے چہرے پر داڑھی گھنی نہیں تھی، مولانا نے بوجۂ تقویٰ ان کو پاؤں دبانے سے منع فرمادیا تھا، وہ حاضر ہوئے تو مولانانے فرمایا کہ آپ اطمینان رکھیں ان شاء للہ، اللہ آپ کے خدمت نہ کرنے سے زیادہ راضی ہوگا، کیوں کہ میں نے اللہ کے لیے احتیاطاً یہ فیصلہ کیا کہ میرے نفس کو کوئی مزہ نہ آجائے، جیسے کوئی عمارت گرجائے، اور کھنڈر رہ جائے اور کھنڈر بزبانِ حال کہہ رہا ہو یہاں عمارت عظیم تھی تو اس کھنڈر کا دیکھنا بھی جائز نہیں، جب گال داڑھی سے بھر جائے گا تو داڑھی سے دوستی گاڑھی ہوتی ہے، اس وقت دیکھنے میں حرج نہیں، اور جب تک اللہ کی دوستی میں خلل واقع ہونے کا اندیشہ ہو اس وقت تک احتیاط کرو، اور نہ دیکھو، اس لیے احتیاط کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے لیے دیکھتا ہوں اور اللہ کے لیے نہیں دیکھتا، آنکھیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں،جہاں انہوں نے فرمایا دیکھو وہاں دیکھتا ہوں، جہاں منع فرمایا وہاں نہیں دیکھتا، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، اس کی توفیق کا شکر گزار ہوں۔جن کے گال بالکل صاف ہیں، اُن کی طرف دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، کہ کہیں میرا نفس شرارت نہ کرجائے، شرارت دل میں ہوسکتی ہے، کیوں کہ جو شیخ ہوسکتا ہے وہ زبان سے شرارت ظاہر نہیں کرسکتا، اس لیے احتیاط کرنا چاہیےالمتقی من یتقی الشبہات (متقی وہ ہے جو شبہ ِ گناہ سے بھی بچے) نفس بہت ہی شریر ہے، اس کے مکر سے وہی بچ سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو، ورنہ بہت بڑے بڑے پڑھے لکھے اور شریف لوگ نفس کی چال میں آجاتے ہیں۔

۴) شیخناوجدناومولانا کے تقویٰ کا عالم ملاحظہ فرمایئے!ایک بار ساؤتھ افریقہ کےسفرپر گئےتو وہاں کسی عقیدت مند نے ایک جبّہ ہدیہ میں پیش کیا، حضرت ہدیہ لے کر بہت خوش ہوئے، جبّہ پہنا اور اپنے متعلقین سے پوچھنے لگے۔ دیکھ کر بتائیں کہ جبّہ ٹخنوں سے نیچے تو نہیں جارہا ؟حضرت کے ایک بہت پرانے خلیفہ نے فرمایا کہ حضرت! نیچے تو نہیں ہے، البتہ ٹخنوں کو چھو رہا ہے۔ شیخنا وجدنا ومولانا چوں کہ بیماری کی وجہ سے اپنا جبّہ خود نہیں اتار سکتے تھے اس لیے فرمایا کہ میرا جبّہ فوری اترواؤ۔ جبّہ اتروانے میں کچھ دیر ہوگئی، تو حضرت بہت ہی غصے سے ڈانٹتے ہوئے فرمانے لگے کہ اگر اسی حالت میں میری موت آگئی تو میں اللہ کو کیا جواب دوں گا؟ جبّہ فوری اترواؤ۔

۵) شیخنا وجدنا و مولانا نےنکاح کے لیے معیار تقویٰ کو بنایا اور آپ نے نہایت سادگی کے ساتھ ضلع اعظم گڑھ کے گاؤں’’کوٹلہ‘‘میں ایک صالحہ قانتہ خاتون جو اگرچہ عمر میں آپ سے دس سال بڑی تھیں مگر ورع وتقویٰ اور صلاح وتدیّن میں پورے گاؤں میں ممتاز تھیں،سے کیا۔دادی جان رحمۃ اللہ علیہا پوری زندگی زہد وقناعت اور صبر واستقامت کا مجسمہ بن کرتنگی و فراخی ہر حال میں بہترین رفیقۂ حیات ثابت ہوئیں، زندگی بھر نہ کبھی کوئی شکوہ کیا نہ کبھی کوئی فرمایش ومطالبہ، بلکہ آگے بڑھ کر دادا کے دین وایمان کی ترقی میں معاونت ونصرت کرتے ہوئے انہیں پوری آزادی دے دی کہ ’’آپ اپنے شیخ کی خدمت وصحبت کو میری راحت پر مقد م رکھیے، میری فکر نہ کیجیے،میں صبر واستقامت سے کام لوں گی‘‘۔اور حسبِ وعدہ پوری زندگی صبروثبات اورصدق ووفا کامکمل ثبوت دیا۔

۲) اتباعِ سنت

شیخنا و جدنا ومولانا کی پوری زندگی اتباعِ سنت کا عملی نمونہ تھی، آپ نے ہمیشہ خود بھی سنتوں کا اہتمام کیا اور حضور اکرم کے طریقوں کو اپنایااوراسی کوذریعۂ نجات سمجھا اور متعلقین کو بھی ہمیشہ اسی کی تلقین کی۔ آپ کا ہمیشہ یہی درس ہوتا تھا کہ جوکام خلافِ سنت ہےوہ نہ شریعت ہے اور نہ طریقت بلکہ وہ گمراہی ہے،اور اسی طرح جو پیر سنت پر عمل نہ کرتا ہو وہ خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کررہا ہے۔ شیخنا و جدنا ومولانا کی خانقاہ اور اس کے در و دیوار، اس کی فضا اس پر شاہد ہے کہ وہاں کس قدر سنتوں کا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کا اہتمام ہوتا تھا اور ہے۔ آپ کو دیکھ دیکھ کر لوگ اپنے اعمال درست کر لیا کرتے تھے گویا کہ آپ مجسمۂ سنت بن چکے تھے اور آپ کا پیکر مجسم سنتِ نبوی کا چلتا پھرتا نمونہ تھا۔آپ کی تصنیف’’ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنتیں‘‘ عرب و عجم میں یکساں مقبول ہے ،نیز ہر کام سے پہلے آپ ہمیشہ اس شعر کو پیش نظر رکھتے اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے تھے ؎

نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے

اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
Meet the path of Sunnah with Allah

عشق کا دوستوں ہم سب کا یہ معیار ہو

متبع سنت ہو اور بدعت سے بھی بیزار ہو

شیخنا و جدنا ومولانا تحریرفرماتے ہیں:

’’شریعت وطریقت، تصو ّف وسلوک کی اساسِ اتباعِ سنت ہے، منازلِ قربِ الٰہی کی اِبتدا بھی یہی ہے اور اِنتہا بھی یہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کی اِبتدا بھی اِتباعِ سنت پر موقوف ہے اور اِنتہا بھی۔ اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے ا پنی محبت کے لیے فَاتَّبِعُوْنِیْ کی قید لگادی،کہ اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے نبی کی اتباع کرو، پھر تمہیں کیا انعام ملے؟ یُحْبِبْکُمُ اللہُ، میں تم سے محبت کرنے لگوں گا۔ معلوم ہوا کہ محبت کی اِبتدا بھی سنت کی اِتباع پر موقوف ہے اور اس کی اِنتہا یعنی محبوبیت عند اللہ بھی سنت کی اِتباع کا ثمرہ ہے کیوں کہ فَاتَّبِعُوْنِیْ پر یُحْبِبْکُمُ اللہُ کی ترتیب منصوص ہے، اسی لیے سید الطائفہ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی نے فرمایا کہ ’’ہمارے سلسلہ میں وُصُوْل اِلَی اللہ(اللہ تک پہنچنا) اسی لیے بہت جلد ہوجاتا ہے کیوں کہ اِتباعِ سنت پر عمل کیا جاتا ہے‘‘۔ اگر آج بھی اُمت سنت کے راستہ پر آجائے تو اس کی دوری حضوری میں تبدیل ہوجائے اور تمام مسائل حل ہوجائیں‘‘۔

۳) کمالِ اعتدال

شیخنا وجد نا ومولانا کا کمال اعتدال اورتعلق مع اللہ انہیں تمام مشایخ سے ممتاز کرتا تھا۔کسی مرید کا شریعت سے سرمو انحراف بھی طبیعتِ اقدس پر انتہائی ناگوار گزرتا اور بلا کسی رعایت کے مشفقانہ انداز میں فوراً اس کی اصلاح فرماتے تھے۔ اندازِ تربیت بالکل منفرد تھا، شدت اور سختی سے کام نہیں لیتے تھے، ، مگر اندازِ بیاں اتنا شفقت بھرا اور الفاظ کا انتخاب اتنا موزوں کہ عزتِ نفس مجروح ہوتی محسوس نہ ہو اور وہ بدکنے، متنفر ہونے کی بجائے گرویدہ ہوکر اُٹھے۔سہولت اور آسانی سے جو عمل ہمیشہ ہوتا رہے اس کو بہتر سمجھتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے:خَیْرُ الْعَمَلِ مَادِیْمَ عَلَیْہِ وَاِنْ قَلَّ بہت سے مریدین کثرتِ عمل کی وجہ سے جب تھک کرجسمانی عوارض کا شکار ہوجاتے تو فرماتے کہ سب بند کردو،اپنی صحت کا خیال رکھو۔ اور بقدرِ ہمت جو ہوسکے کرتے رہو۔معمولات میں بھی سہولت اور اختصار کو پسند فرماتے تھے، اتنے بھاری معمولات اور اذکار نہیں بتاتے تھے کہ جن کو پورا کرنے میں دنیوی کام کاج کے ترک کی نوبت آئے۔ہر وقت ہشاش بشاش اور باغ وبہار نظر آتے، سلوک وتصوّف کے موضوع پر نہایت وسیع مطالعہ تھا،قرآن وحدیث اور آثارِ صحابہ سے تصوّف پر عالمانہ اور محققانہ استدلال کرتے تھے۔

ایک بار ارشاد فرمایا: بنیادِ ولایت تقویٰ ہے، اس زمانہ میں جب کہ قویٰ میں اضمحلال اور ضعف ہے اب وظائف اور ذکر کی تعداد میں اعتدال ضروری ہے ورنہ صحت ِ جسمانی کے متأثر ہونے کے علاوہ رضاء ِ حق بھی حاصل نہ ہو گی کیوں کہ جب ایک باپ کی رحمت کو یہ گوارا نہیں کہ اس کا بیٹا اتنی محنت کرے کہ بیمار پڑ جائے تو حق تعالیٰ ارحم الراحمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے احقر کے قلب پر یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح فرمادی ہے کہ ولایت اور ولایت کے تمام مقامات حتیٰ کہ ولایت ِ صدیقیت کا مدار اذکار پر نہیں تقویٰ پرہے ورنہ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ کی آیت نازل نہ ہوتی۔ اِلَّا الْعَابِدُوْنَ نہیں فرمایا اِلَّا الْمُتَھَجِّدُوْنَ نہیں فرمایا، اِلَّا الْمُتَنَفِّلُوْنَ نہیں فرمایا حتیٰ کہ اِلَّا الذَّاکِرُوْنَ بھی نہیں فرمایا۔ معلوم ہو اکہ بنیادِ ولایت تقویٰ ہے،البتہ ذکر و اذکار اس کے حصول میں معین ہیں۔ لہٰذا ذکر اتنا کافی ہے جو بقدرِتحمل ہو تاکہ دل میں اتنا نور آجائے کہ صدورِخطا کی ظلمت کا فوراً احساس ہو اور بندہ اس کی تلافی کر لے کیوں کہ ذاکر کو ظلمت کا احساس ہو جاتا ہے۔معلوم ہوا کہ ذکر معین ہے مقصود کا،اور مقصود کیا ہے؟ کہ زندگی کی ہر سانس اللہ پر فدا ہو اور ایک سانس بھی اللہ کی ناراضگی میں نہ گزرے،یہی کمالِ تقویٰ ہے،اور جس کو یہ بات حاصل ہو گئی وہ ولایتِ صدیقیت کی آخری سرحد تک پہنچ گیا جہاں ولایت ختم ہے اور جس کے بعد ولایت کا کوئی درجہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محض اپنے کرم سے یہ مقام نصیب فرمائے، آمین۔

۴) سراپا شفقت مجسمِ محبت

اولادِ جسمانی و روحانی کے ساتھ شفقت اور رحمت کا ایسا رنگ تھا جو حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا جلتا تھا۔ جیسا کہ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے حضرت حاجی صاحب سراپا رحمت و شفقت تھے، خفا ہونا اور ڈانٹنا تو جانتے ہی نہ تھے،لیکن آپ کا فیض عام اور تام تھا۔ آپ کے فیضانِ صحبت سے کوئی محروم نہ ہوتا تھا۔‘‘ شیخنا و جدنا و مولانا کریم النفس، حلیم الطبع، صاحب ِفراست اور بابصیرت شخص تھے، بڑی شفقت اور محبت کا معاملہ فرماتے تھے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اولاد کی طرح مانتے اور دوستوں کی طرح پیش آتے تھے، اسی وجہ سے جسمانی و روحانی اولاد شیخنا و جدنا و مولانا کو دل کی گہرائی سے چاہتی تھی اور ان پر جان نثار کرتی تھی۔ جب بھی کوئی سالک خانقاہ امدادیہ اشرفیہ میں حاضر ہوتا اور جتنے دن بھی اس کا قیام رہتا اس کے ساتھ بھی بڑی شفقتوں اور عنایتوں کا معاملہ فرماتے۔شیخنا و جدنا و مولانا کی شفقتیں ان کے الطاف و کرم جب یاد آتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔وہ سراپا محبت تھے اور ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں ، بنگلہ دیش کے ایک بہت بڑے عالم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اگر اس زمانے میں محبت کو کوئی جسم دیتے تو یقیناً وہ حضرت والا کا جسم ہوتا۔

شیخنا و جدنا ومولانا کے اپنے اولاد،اعزہ اور احباب کے ساتھ دلجوئی اور محبت و شفقت کے بے شمار واقعات ہیں، چند ایک ملاحظہ ہوں:

۱) حضرت والد صاحب دامت برکاتہم جب بھی سفر پر جاتے تو شیخنا و جدنا ومولانا ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت فرماتے اور جب واپسی کا وقت ہوتا تو بے چینی وبے قراری حد درجہ ہوتی تھی،بار بار بذریعہ فون رابطہ کرتے اور اگر کبھی رات کے وقت واپسی کا موقع ہوتا تو اس وقت تک بسترِ استراحت پر تشریف نہیں لے جاتے تھے جب تک جی بھر کر نہ دیکھ لیتے اور نہایت بشاشت سے معانقہ نہ فرمالیتے ۔

۲) جن اعزہ و اقارب سے شیخنا و جدنا و مولانا کو پوری زندگی تکالیف پہنچی ان کو سینے سے لگا کر رکھا ،ان کی ہر مشکل میں مدد کی اور اخیر حیات میں ان کے ساتھ اتنا لطف کرم بڑھتاگیا کہ دیکھنے والوں کو حیرت ہوتی تھی۔ اس کو ’’اختر السوانح‘‘ میں ان شاء اللہ مفصل تحریر کروں گا۔

۳) ایک دفعہ حضرت مولانا طلحہ صاحب کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم نےملاقات کا وقت طلب کیا، کسی خادم نے شیخناو جدنا ومولانا کو ملاقات کے طےشدہ وقت سے دوگھنٹے قبل کا وقت بتادیا ، چناں چہ اپنے معمول سے پہلے ان کے انتظار میں بیدار ہوگئے اور تیار ہوکر انتظار فرماتے رہے، خدام نے پوچھا کہ جلدی بیدار ہونے کا سبب کیا ہے؟ تو فرمایا کہ’’مولانا طلحہ صاحب ملاقات کے لیے آنے والے ہیں‘‘،مولانا طلحہ صاحب نے فرمایا ہم لوگ جب پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ دو گھنٹے سے انتظار فرمارہے ہیں، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی محبت دیکھ کر تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی ہوئی۔

۴) حافظ داؤد صاحب (جو کہ حضرت والا کے خاص شاگرد اور خلیفہ مجاز ہیں، ری یونین سینٹ پیئر میں انہوں نے حضرت والا کے ایماء پر خانقاہ امدادیہ اشرفیہ قائم فرمائی) ایک شخص کو لے کر حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میرے دوست ہیں آج کل کچھ پریشان ہیں، دعا چاہتے ہیں۔ حضرت والا نے فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے اور دعا فرمائی اور دعا کے بعد ان صاحب سے فرمایا کہ بعد میں بھی دعا کروں گا،اور سب حاضرین سے فرمایا کہ جب کوئی دعا کے لیے فرمایش کرے تو ایک دعا فوراً کر دیا کرو اس سے اس کا دل خوش ہو جائے گا کیوں کہ مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔

۵) ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ خانقاہ میں دورانِ بیان حضرت والا نے رمال طلب فرمایا تو ایک شخص نے ٹشو پیپر پیش کیا اور حضرت میر صاحب دامت برکاتہم نے حضرت والا کا رومال جو ان کے پاس تھا پیش کیا، لیکن حضرت والا نے ان کا ٹشو پیپر استعمال فرمایا اور فرمایا کہ سب کی دلجوئی کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے، اصلی شیخ وہی ہے جو دلوں کا خیال رکھتا ہے۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے کہ کسی اللہ والے کی دل شکنی نہ ہو، اس کا دل نہ ٹوٹنے پائے۔ اب اس بیچارے نے ٹشو پیپر دیا، کس محبت سے دیا اور مجھے رومال بھی پیش ہو امگر یہ رومال تو میرا ہی ہے، اگر اپنے رومال کو نہ استعمال کروں تو کوئی شکایت نہیں کرے گا، لیکن اگر ٹشو پیپر استعمال نہ کرتا تو اس کا دل دکھ جاتا کہ میرا ٹشو پیپر قبول نہیں ہوا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ ٹشو پیپر استعمال کروں۔ یہ توفیق ہونا بھی میرے بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔ اللہ اکبر! اس واقعہ میں حضرت والا کی تواضع و فنائیت کا مقام بھی نظر آتا ہے۔

۶) جوہانسبرگ (جنوبی افریقہ) میں جب حضرت والا دعوتی سفر پر تھے، وہاں ایک دن صبح جھیل پہنچ کر سیر کے بعد مولانا منصور الحق ناصرصاحب (جو کہ حضرت والا کے عاشق اور خلیفہ ہیں) سے اشعار پڑھنے کے لیے فرمایا اور نہایت محبت و رِقّت کے ساتھ فرمایا کہ اگر میں نواب ہوتا تو کوئی ریاست آپ کے نام لکھ دیتا کہ سب چھوڑو میرے ساتھ رہو،لیکن کیا کریں اللہ تعالیٰ غیب سے کوئی سامان ان کا کر دیں تو یہ ہمارے لیے بہت ضروری ہیں (تمام احباب نے آمین کہا)۔پہلے زمانہ میں نواب لوگ شاعروں کو کچھ گاؤں لکھ دیتے تھے کہ یہ تمہارا ہے، شاعروں کے مزے آ جاتے تھے۔ اب تو ریاستیں بھی ختم ہوگئیں،مگر اللہ کی قدرت بہت بڑی ہے (رِقّت آمیز آواز میں فرمایا کہ) وہ چاہیں تو اپنی رحمت سے کوئی انتظام غیب سے فرما دیں۔

۵) جامع شریعت و طریقت

بلاشبہ’’ شریعت و طریقت‘‘ مقصدِنبوت بھی ہے اور رضاء الٰہی کا ذریعہ بھی، دونوںکا باہمی تلازم بھی ہے اوران میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر نامکمل بھی۔ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تا حیات شریعت کی تعلیم دی اور طریقت کے ذریعے شریعت کو قلوب و اذہان میں پیوست فرما دیا۔ یہی وجہ تھی کہ شریعت کا ہر امر خواہ وہ مشکل ہو یا آسان، دینی ہو یا دنیوی ، مال کو لٹا دینے کا ہو یا جان قربان کر دینے کا، مال و زر لٹا دینے کا ہو یا اولاد و ازواج کی قربانی کا،غیر مسلم اقارب سے مقاطعہ کا امر ہو یا روٹھے ہوئے ستم گر عزیزوں سے صلہ رحمی کا، عقائد کا معاملہ ہو یا عبادات کا ، سبھی کچھ حضرات صحابہ کرام کے لیے آسان تھا، سچ ہے کہ شریعت اللہ تعالیٰ کا رنگ ہے اور ماہرینِ شریعت وعلماء رنگ فروش،جب کہ طریقت رنگ ریزی،اور مشایخ ِ طریقت رنگ ریزہو۔جس طرح نظروں میں اتر جانے والا خوش کن رنگ کپڑے کوقیمتی بنا دیتا ہے، رنگ کے بغیر کپڑا بے قیمت اور رنگ کپڑے کے بغیر اپنا وجود تک ظاہر نہیں کر پاتا اسی طرح شریعت طریقت کے بغیر پھیکی اور طریقت شریعت کے بغیر بلا وجود ہے۔

شیخنا و جدنا و مولانا شریعت و طریقت کی عجیب اور دل آویز تفسیر و تصویر تھے،ایک جانب وہ محقق عالم، مجتہد، مفسر، اورمحدث تھے تو دوسری جانب وہ واقف اسرارِشریعت، ماہرِطریقت، درجۂ احسان پر فائز اور راہِ سلوک کے راہ رو تھے۔اُمت میں ہر دور میں ایسی معدودے چند شخصیات رہی ہیں اوران شاء اللہ رہیں گی،نیز ایک ایسے وقت میں جب کہ جعلی پیروں نے برساتی کھمبیوں کی طرح سر اٹھا کر تصو ّف و طریقت کو اتنا بدنام کیا ہے کہ لوگ تصو ّف وطریقت کو شریعت سے الگ خیال کرنے لگے، شیخنا و جدنا و مولانا نے تصو ّف وطریقت کا حقیقی تصور پیش کیا۔ لوگوں کو بتلایا کہ اصل میں شریعت پر عمل کرنے کا نام ہی تصو ّف وطریقت ہے۔ جو عمل شریعت سے جدا ہو وہ گم راہی تو ہوسکتی ہے، تصو ّف وطریقت نہیں ہوسکتا۔

شیخنا وجدنا ومولانا کی امتیازی خصوصیات میں سے یہ بھی تھی کہ جس طرح شیخناوجدناومولانا نے بذاتِ خود عملی مشق کی، اسی طرح اپنے مریدین ومنتسبین کو بھی احکامِ دِین کو بجالانے کی عملی مشق وتربیت کروائی، حتیٰ کہ اذان واقامت، نماز، وضو وتیمم سمیت دیگر اُمورِ دینیہ تک کی باقاعدہ عملی مشق کرواتے، غلطیوں کی نشان دہی فرماتے۔

ان کے اندازِ تربیت میں جہاں تَحْلِیَۃْ بِالْفَضَائِلْ تھا وہیں پر وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ کی رو سے تَخْلِیَۃْ عَنِ الرَّذَائِلْ کا بھی خصوصی اہتمام تھا۔گناہوں سے متعلق نفس وشیطان کے مکر کو خوب وضاحت سے بیان فرماتے اور اُس سے بچنے کی تدابیر بھی بتاتے اور علاج بھی تجویز فرماتے، ظاہر کے حوالے سے بھی نہایت حسّاس طَبع واقع ہوئے تھے۔

شیخنا و جدنا و مولاناکےتمام عمر اتباعِ شریعت و سنت میں گزارنے کے سبب آپ کی تعلیمات و تربیت کیمیاء کا اثر رکھتی تھی ، اس کا اثر وہ اپنے متعلقین پر بھی دیکھنا چاہتے تھے، یہی وجہ تھی کہ کسی مرید کا شریعت سے سرمو انحراف بھی طبیعتِ اقدس پر انتہائی ناگوار گزرتا اور بلا کسی رعایت کے مشفقانہ انداز میں فوراً اس کی اصلاح فرماتے تھے۔ آپ کا ارشادِ مبارک ہے کہ اہل اللہ کے پاس علم میں اضافہ کے لیے نہ جاؤ بلکہ علم پر عمل کے لیے جایاکرواور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے جایا کرو، لہٰذا اگر شیخ ایک ہی بات بار بار کہے تو اس سے اکتانا نہیں چاہیے کیوں کہ تکرار ہی سے علم و عمل میں رسوخ حاصل ہوتا ہے ۔ جس کو تکرار میں مزہ نہ آتاہو اس کا قلب سقیم ہے، اس کو علاج کرانا چاہیے کیوں کہ خالق فطرتِ انسانیت نے اپنے کلام کو تکرارِ آیات کے ساتھ نازل فرمایا ہے، پس فطرتِ انسانیت کے لیے پندو نصائح کا بار بار ہونے کا نافع ہونا ظاہر ہے۔

شیخنا و جدنا و مولانا نے یہ بات بارہا بیان فرمائی کہ جس معاشرے میں ’’کو لیرا‘‘ جیساخطرناک مرض پھیلا ہوا ہو اور طبیب لوگوں کو نزلہ وزکام کی احتیاطی تدابیر اور علاج سے آگاہ کررہا ہو تو یہ مقتضائے حال کے مطابق نہیں،چناں چہ میرا بیان خصوصیت سے بدنظری کے حوالے سے اس لیے ہوتاہے کہ معاشرے میں یہ خطرناک و مُوذی مرض بہت تیزی سے پھیلتی ہوئی وَبا کی صورت اختیار کرگیا ہے اور عوام اس کے مضرات کو سمجھنا تو کجا!اس کوگناہ ہی نہیں سمجھ رہے۔نیز یہاں دو باتیں الگ الگ ہیں: (۱)ایک ہی مضمون کو بیان کرنا (۲)کسی مضمون کی اہمیت کے پیش ِنظر اس کو اہتمام اور تفصیل سے بیان کرنا۔

شیخنا و جدنا و مولانا کےارشاداتِ دردِ دل دوسری نوع سے تھے جن کا حاصل یہ ہے کہ یہ مہلک مرض جس قدر خطرناک حد تک اور کثرت سے پھیل رہا ہے اُس کا علاج بھی اسی قدر اہتمام سے ہونا چاہیے، بلاشبہ شیخنا و جدنا و مولانا اس مضمون میں مُجدّد تھے۔جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے تو خوب سمجھ لینا چاہیے شیخنا و جدنا و مولانا نے جملہ شعبہ ہائے زندگی کی عملی مشق اپنے مشایخ کی صحبت میں کی تھی،چناں چہ ان کے مواعظ وملفوظات دین ِاسلام کے تمام شعبہ ہائے زندگی (عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت وباطنی اخلاق) سے متعلق رہنمائی سے پُر ہیں۔

ایک مرتبہ ارشاد فرمایادعوۃ الی اللہ میں اثر عملِ صالح سے آتا ہے۔ خواص کی تربیت عوام کی تربیت سے افضل ہے کیوں کہ خواص کے ذریعہ سے دین عوام میں پہنچ جاتا ہے،اگر علماء اللہ والے بن جائیں، صاحبِ نسبت درد بھرا دل ان کے سینہ میں ہو تو بتاؤ کیا عالم ہو گا!اس عالم سے پورا عالم روشن ہو جائے گا،ورنہ جو روحانی امراض کے ساتھ دعوت دے گا تو اس کی دعوۃ الی اللہ میں اثر نہ ہو گا،اسی لیے دعوۃ الی اللہ کے ساتھ عملِ صالح کی آیت نازل ہوئی وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا۔ معلوم ہو اکہ جو دعوۃ الی اللہ کرے وہ نیک عمل بھی کرے،گناہوں سے بھی بچے۔اور عملِ صالح کی توفیق اہل اللہ کی صحبت سے ہوتی ہے۔

۶) والدین ،اساتذہ اور مشایخ کی اطاعت اور خدمت

شیخنا وجدنا و مولانا جب تک اِس دنیا میں رہے تو طرح طرح اپنے بیانات سے، اَشعار سے، تالیفات وتصنیفات سے، توجہ اور تصرفات سے، محبت وشفقت سے، اُمت کی خیر خواہی کے بے پناہ پاکیزہ جذبات سے، اپنے والدین و مشایخ کی دعا وبرکات سے نور ونورانیت بکھیرتے رہے، خلق ِخدائے تعالیٰ قریب سے اور دور ہوتے ہوئے بھی اُن سے مستفید ہوتی رہی،لیکن اپنی پوری زندگی والدین ،استاذہ اور مشایخ کی اطاعت ،خدمت کا عملی نمونہ بن کرگزاری۔

شیخناو جدنا ومولانا کی خواہش دیوبند جاکر علومِ دینیہ پڑھنے کی تھی لیکن اپنی خواہش کے خلاف اور اپنے والد ِماجدکی خواہش کے مطابق عصری اسکولوں میں پڑھا اور طبیہّ کالج اِلٰہ آباد سے حکمت کی سند حاصل کی ۔

رمضان شریف میں جب سحری کھا کر شیخنا وجدنا و مولانامسجد چلے جاتے تو والدہ صاحبہ عمرکم ہونے کی وجہ سے پریشان ہوتیں اور منع کرتیں کہ اتنی رات کو اکیلے مت جایا کرو،والدہ کے حکم کی تعمیل میں رات کو اکیلے مسجد جانا چھوڑدیا اور گھر ہی میں تہجد کی نماز پڑھنا شروع کردی اور والدہ ماجدہ جب تک حیات رہیں ان کی ایسی خدمت اور اطاعت کی کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔

شیخناو جدناومولانا نے اپنے مشایخ کی بھی خوب خدمت کی۔ ترجمۃ المصنف میں شیخناوجدناومولانا تحریر فرماتے ہیں:

اختر اس وقت ۲۱ سال کا تھا اور توفیقِ الٰہی سے اپنا عالمِ شباب ایک بوڑھے شیخ کی خدمت وصحبتِ دائمہ پر نذر وفدا کررہا تھا۔ خانقاہ شریف قصبہ سے باہر تھی،عجیب تنہائی کا عالم رہتا تھا ۔ ایک دن والدہ صاحبہ سے حضرت مرشدرحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اختر میرے ساتھ ایسے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے جیسے کہ دودھ پیتا بچہ ماں کے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے۔حضرت شیخ کی خدمت میں جو طویل عمر گزری اس میں مجاہدہ اختیاریہ کا حق تو احقر سے ادا نہ ہوسکا لیکن الطافِ حق نے میری باطنی ترقی کے لیے غیب سے مجاہدۂ اضطراریہ کا سامان فرمادیا جس کی بدولت کلیجے منہ کو آگئے اور ان ہی مجاہدات کی بدولت آج سینہ میں ایک ٹوٹا ہوا درد بھرا دل رکھتا ہوں جو میرے نزدیک اتنی عظیم نعمت ہے کہ اس کے بدلے میں سلطنت ہفت اقلیم مجھے قبول نہیں اور ان مجاہدات کی تفصیل بیان کرنا خلافِ مصلحت سمجھتا ہوں لیکن میرے مندرجہ ذیل اشعار میرے حالات کی کچھ کچھ غمازی کرتے ہیں؎

درسخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگ گل

ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا

۷) ہمہ وقت درسِ معرفت و محبت

شیخناوجدناومولاناکا وعظ علوم ومعارف کا گنجینہ، راہِ سلوک میں پیش آنے والے پیچ وخم کے لیے مشعلِ راہ اور سالکین کی باطنی پریشانیوں اور روح کےامراض کے لیے نسخۂ مجرب ہوتا تھا۔ وعظ کا ایک ایک لفظ عشق ومحبت اور کیف ومستی میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔ معاصر علماء وواعظین میں ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کا عمدہ نمونہ اور اعلیٰ مثال شیخناوجدناومولاناکے مواعظ میں ملتی ہے۔اللہ والوں کی صحبت سے محروم صرف نقوش والفاظ کا علم رکھنے والے اور صحبت یافتہ واصلاح یافتہ عالمِ ربانی وعاشق حقانی کے اندازِ کلام اور طرزِ خطاب میں کیا فرق ہوتا ہے، یہ فرق شیخناوجدناومولاناکے مواعظ وارشادات سن کر سمجھ میں آتا تھا۔شیخنا و جدنا و مولانا نے خانقاہ کے منبر سے اور تزکیہ وتصو ّف کی مسند سے جہاں نیکیوں کے راستوں پر چلنے کا درس دِیا اور پوری تن دہی کے ساتھ فریضہ امر بالمعروف انجام دیا، وہیں پوری ذمہ داری کے ساتھ تڑپ اور کڑھن انگیز انداز میں لوگوں کو ہلاکت وتباہی کے پُر خطر راستوں سے بچانے کے لیے نہی عن المنکر کا عمل بھی بخوبی انجام دیا ہے خصوصاً بدنظری و عشق مجازی کی تردیدوتطہیر کے لیے آپ کی خدمات مجددنانہ شان کی حامل ہیں ۔

شیخنا و جدنا و مولانا نے پوری زندگی جس حقیقی محبت ِالٰہیہ کا پیغام دیا، معرفت ِالٰہیہ سے روشناس کرایااور دردِ محبت کے ساتھ جوآہ و فغاں پورے عالم کو سنائی اور اسی آہ و فغاں اوردردِ محبت کے نشرمیں اپنی متاعِ حیات لگادی اس کے متعلق شیخنا و جدنا و مولانا ہی کے چند اشعار پیش ہیں، جوان احوال کی کسی قدر ترجمانی کرتے ہیں ؎

نظر آتا ہے اپنے دل کا جب زخم ِ نہاں مجھ کو

تو اپنا درد خود کرتا ہے مجبورِ بیاں مجھ کو

زبانِ عشق کی تاثیر اہلِ دل سے سنتا ہوں

مگر مسحور کرتی ہے محبت بے زباں مجھ کو

مری صحرا نوردی اور میری چاک دامانی

بہت مجبور کرتی ہے مری آہ وفغاں مجھ کو

کہاں تک ضبطِ غم ہو دوستو راہِ محبت میں

سنانے دو تم اپنی بزم میں اپنا بیاں مجھ کو

بنگلہ دیش کے ایک عالم مولانا نور الاسلام صاحب (جو شیخناوجدناومولاناکے اجل خلفاء میں سے ہیں)نےآپ کی پُرنور و بابرکات مجالس و مواعظ کا نقشہ اپنے اشعار میں کچھ یوں کھینچا ہے ؎

دردِ دل کے ان مواعظ میں عجب تاثیر ہے

روح کے امراض کا اک بےبہا اکسیر ہے

شاہ اختر کا بیاں ہے اصل میں الہامِ حق

عشقِ حق کی جلنے والی آگ کی تعبیر ہے

گرچہ کہتی ہے حقائق شاہ اختر کی زباں

درحقیقت یہ کلام اللہ کی تفسیر ہے

آپ کی ہربات میں امراضِ باطن کی دوا

جیسے افلاطون و جالینوس کی تدبیر ہے

روح کو ملتی ہے راحت دل کوملتا ہے سرور

جی نہیں بھرتا یہ اِک جادو بھری تقریر ہے

دل نہیں بھرتا کبھی تقریر ہو جتنی طویل

پیاس بجھتی ہی نہیں یہ کیسا شیریں شیر ہے

آتش دردِ محبت کس قدر ہے شعلہ زن

پھونک دے لاکھوں کو گویا آگ کا وہ کیر ہے

ایشیا یورپ سے لے کر افریقہ تک فیض یاب

کیا بتاؤں فیض اختر کیسا عالمگیر ہے

عاشقانِ صحبت تو بےخود و مستانہ وار

جم کے رہتے جیسے ان کے پاؤں میں زنجیر ہے

نوربھی ان عاشقوں میں چوں ایاؔز ادنیٰ غلام

آپ ہیں محمود میرے خوش میری تقدیر ہے

۸)اعزہ اقارب و متعلقین کی مالی اعانت

شیخناوجدنا ومولانا کا پوری زندگی بلاکسی تفریق کے اپنے اعزہ واقارب اور خدّام کے ساتھ مالی معاونت کا معمول تھا۔پاکستان ہجرت کے بعد جب تک والدہ صاحبہ حیات تھیں مطب اشرفی اور کتب خانہ سے ہونے والی اپنی کل آمدنی ان کی خدمت میں پیش کردیتے تھے ،جملہ خدام کے مالی حالات کا قرائن و دیگر طریقوں سے معلوم کر کے ان کی تمام ضروریات کو اپنے ہدایا سے پورا فرمادیتے تھے، نیزاخیر حیات میں تمام ہدایا عزیز و اقارب اور خدام میں تقسیم فرمادیتے یا خانقاہ امدادیہ اشرفیہ کے شعبۂ نشر و اشاعت میں اپنی کتابوں کی طباعت کے لیے جمع کروادیتے تھے،انتقال سے کم وبیش تیس سال قبل اپنی تمام مملوکہ اشیاء اپنی ملکیت سے نکال کر اپنے نائب اور فرزند حضرت مولانا شاہ حکیم محمد مظہر صاحب کی ملکیت میں دے دی تھیں اور کپڑے وغیرہ ان سے عاریتاً لے کر استعمال فرماتے تھے ۔

۹)اہلِ فتویٰ سے مراجعت

شیخنا وجدناومولاناکا پوری زندگی اہلِ فتویٰ سے مراجعت کا معمول رہا،کبھی اپنی رائےپر عمل نہیں کیا۔مفتی رشیداحمد صاحب رحمہ اللہ کی صحت تک شرعی مسائل کے حل کے لیے ان سے رجوع فرماتے پھر اخیر حیا ت تک مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب سے شرعی مسائل کے اندر رجوع کا معمول رہا ،اپنے کسی مرید مفتی سے اگر مسئلہ پوچھتے تو اس کی تصدیق جب تک مفتی عبدالرؤف صاحب سے نہ کروالیتے اطمینان نہ ہوتا تھا۔نیزاپنی وصیت میں آل اختر کے لیے خاص طور سے یہ ہدایت جاری فرمائی کہ مالی معاملات میں ہمیشہ اہل ِفتوی سے مراجعت کا معمول رکھیں۔

۱۰) ہر کام میں مشاورت

وَشَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللہِ

ہمارے مولانا کا معمول پوی زندگی اس سنت پر عمل کا تھا، ہر دینی و دنیاوی کام میں کسی دیندار فہم والے سےمشورہ کیاکرتے تھے،دینی امور اصلاح و تربیت کےلیے پہلے حضرت مولانا شاہ محمد احمدصاحب پھر حضرت مولانا عبدالغنی صاحب پھولپوری سے پھر ان کے وصال کے بعد حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب سے پھر حضرت ہردوئی کے حکم پر حضرت کے خلیفہ اور اپنے فرزند حضرت مولانا حکیم محمدمظہر صاحب سے مشورہ کا معمول تھا بلکہ ایک خط میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ’’ مجھے مولانا مظہر سلمہٗ کے مشورہ سے بہت نفع ہوتاہے‘‘ ؎

مشورہ کن از گروہِ صالحاں

بر پیمبر امرہم شورٰی بداں

ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ حضرت ہردوئی بھی کوئی کام نہیں کرتے تھے جب تک حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب سے مشورہ نہ کرلیتے تھے۔

۱۱) لباس میں نظافت و نفاست

شیخنا وجدنا ومولاناکےمزاج میں بڑی لطافت اور نفاست تھی، جس کا اثر اُن کے لباس، نشست وبرخاست، گفتگو اور اصلاحی طریقۂ کار پر بھی محسوس ہوتا تھا،زندگی کے دوسرے دورمیں شاہانہ انداز میں رہتے، اللہ نے دنیا سے بھی خوب نوازا تھا، مگر دنیا کی محبت دل میں ذرا سی بھی نہیں تھی، خوب لٹاتے اور خوب خرچ کرتے تھے ، اپنے مواعظ اور نصائح میں اپنی بات کی وضاحت اور مخاطب کی تفہیم کے لیے ایسی عمدہ مثالیں دیتے تھے کہ ہر شعبۂ زندگی کا شخص باآسانی سمجھ جاتا تھا۔زبان بڑی شیریں، پُر اثر، سہل اور تعبیر بلیغ اور عام فہم ہوتی تھی، کسی باریک مرض اور دقیق خامی کی اصلاح ایسی حکمتِ عملی سے فرماتے کہ مخاطب پوری طرح سمجھ جاتا اور مریدین ومعتقدین بھی پوری طرح مستفید ہوتے۔

۱۲) مہمانوں کی ضیافت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے شیخناوجدنا ومولانا کے دسترخوان کو ان کے مجاہدات ،صبر و استقامت ،استغنا وتوکل اورصلہ رحمی کے سبب خوب وسیع کردیاتھا،پوراسال ہم عصر اکابرین اعزہ و اقارب، دوست احباب اور سالکین و متعلقین کی آمد جاری رہتی تھی،اکابرین تو اکابرین ایک ایک سالک کےقیام و طعام سے متعلق خدام سے باربار دریافت فرماتے تھے اور یہ ہدایت جاری کررکھی تھی کہ جو لوگ اللہ پاک کی معرفت و محبت سیکھنے کے لیے میرے پاس خانقا ہ آیاکریں ان کی راحت کا مکمل خیال رکھا جائے ۔

۱۳) فکر برائے استقامت

تقویٰ پر استقامت ایک ہزار کرامت سے افضل ہے،ملّا علی قاری نے لکھا ہے اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ اَلْفِ کَرَامَۃٍ، فوق الکرامۃنہیں ہے، مشہور تو یہی ہے نا کہ استقامت کرامت سے افضل ہے۔ اﷲ پاک محدثِ عظیم ملّا علی قاری کو جزائے خیر دے! فرماتے ہیں کہ استقامت ایک ہزار کرامت سے افضل ہے۔ جو اپنے مالک کو ایک لمحہ ناراض نہ کرے اور ہر لمحۂ حیات خدائے تعالیٰ پر فدا کرے یعنی مالک کی خوشی والے اعمال کرے اورجہاں دیکھے کہ ناراضگی کا خطرہ ہے وہاں پہلے ہی سے نظر بچالے، جان دے دے مگر مولیٰ کو ناراض نہ کرے یہ ہزار کرامات سے افضل ہے۔اسی طرح باطنی نعمتوں کے زوال سے پناہ بھی اس میں شامل ہے ،جیسے:نعمت ِتقویٰ ہے کہ ابھی تک محفوظ تھے، لیکن ہوائی جہاز میں بیٹھے اور ایئرہوسٹسوں کو دیکھنا شروع کردیا اور آنکھوں کی نعمت ِتقویٰ زائل ہوگئی،یا کانوں سے گانا سننے لگے اور کانوں کا تقویٰ زائل ہوگیا،یا غصہ چڑھ گیا تو ماں باپ سے لڑنے لگے یا بے کس سمجھ کر بیوی کو پیٹنے لگے ۔تو زوالِ نعمت بھی عدمِ استقامت میں داخل ہے۔لہٰذا اخلاقی زوال ہو یا ایمانی زوال ہو یا کیفیتِ احسانیہ کا زوال ہو سب اس میں شامل ہے۔

شیخنا وجدنا ومولانا کو اللہ پاک نے تقویٰ اور کیفیتِ احسانیہ کی جوعظیم الشان دولت عطا فرمائی تھی اس کی بقا اور ترقی کی مسلسل فکر کرتے تھے اور ہمیشہ یہ دعاکیاکرتے تھے کہ اے خدا! ہماری حفاظت فرما، استقامت علی التقویٰ نصیب فرما، یہ نعمتِ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ سے وفاداری اور فدا کاری جسے حاصل ہے تو سمجھ لو کہ یہ اللہ کا ولی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت کی وجہ کثرتِ عبادت نہیں ہے، لہٰذا اگر سمجھنا ہے کہ کون کتنے اونچے درجہ کا ولی اللہ ہے تو کثرت ِ عبادت کو نہ دیکھو بلکہ اس کی استقامت علی التقویٰ دیکھو، کہ نہ حسینوں سے، نہ مال و دولت سے، نہ تخت و تاج و سلطنت سے بکتا ہو، نہ عالم کے چاند و سورج اسے خرید سکیں تب سمجھ لو کہ یہ شخص اللہ والا ہے۔تو یہ کیفیتِ احسانیہ جب قلب میں ہو، ہروقت عظمتِ الٰہیہ کا غلبہ ہو تب آدمی گناہ سے بچتا ہے۔ہمارے مولانا نے اپنی اس دعا کو ان اشعار میں بھی پیش کیا اور بارہا اس کو تکرار کے ساتھ سماعت بھی فرماتے تھے ؎

میں جہاں بھی رہوں جس فضا میں رہو

میرا تقویٰ ہمیشہ سلامت رہے

روزو شب قلبِ اختر کی ہے یہ دعا

میرے مولا میری استقامت رہے

۱۴) اولیائے صدیقین کی خطِ منتہا کی دعوت

شیخناوجدناومولانا ہمیشہ اپنے اور اپنی جسمانی و روحانی اولاد کے لیے یوں دعامانگا کرتے تھے :

دوستو! اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے میں اپنے لیے بھی اور آپ سب کے لیے بھی دردِ دل سے چاہتا ہوں کہ ہم سب اولیاء صدیقین کی جو آخری سرحد ہے جس کے آگے ولایت ختم ہے، آگے نبوت کے بند دروازے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اختر کو، میری اولاد کو اور میرے احباب کو اولیاء صدیقین کی آخری سرحد تک پہنچا کر پھر ہماری روح کو قبض کرے، ہم میں سے ایک بھی محروم نہ رہے۔ہمارے دارالعلوم سے بڑے بڑے علماء ربانیّین اور اولیاء صدیقین علماء پیدا فرما ئےاور قیامت تک کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے اور اختر کو بھی سارے کاموں سے فارغ فرمائے۔ اﷲ جتنے بھی دین کے کام ہیں، شعبے ہیں، سب سے فارغ فرما دے اور اس کے لیے اختر کو علماء عطا فرما، اختر کے ذمے ایک شعبہ عطا فرما دے کہ اپنی محبت کے درد کی خوشبو کو سارے عالم میں نشر کرنے کے لیے قبول فرما اور گروہِ عاشقاں بھی عطا فرما، صحت وعافیت کے ساتھ اختر کی جانِ ناتواں کو یا اﷲ ایک کروڑ جانِ توانا عطا فرما اور اپنی راہ پر فدا کرنے کی سعادت نصیب فرما، آمین۔

شیخنا و جدناو مولاناکے مواعظ وبیانات، ملفوظات وتصنیفات کی طرح اسفار بھی بے شمار ہیں، پاکستان میں تو اُن کا قیام ہی تھا، جہاں اندرون ِملک متعد ّد مقامات پر بلائے جاتے، جہاں جاتے محافل ِرُشد وہدایت قائم ہو جاتیں،اللہ تعالیٰ کی معرفت و محبت کے خزانےلٹاتے۔بنگلہ دیش اورساؤتھ افریقہ کے بارہا سفر ہوئے، ہر سفر میں علماء و عوام کی بڑی تعداد آپ کے ہاتھ پر توبہ و بیعت کر کے سلسلہ میں شامل ہوتی۔ ہندوستان، فرانس، برما، متحدہ عرب امارات، نیروبی، بوٹسوانا، زمبیا، انگلینڈ، امریکا،ترکی اوردیگرممالک بھی متعدد بارمدعو کیےگئے، کہیں مختصر قیام فرمایا، کہیں طویل قیام فرمایا لیکن ہر جگہ گہرے نقوش چھوڑے اور ایک بڑے طبقے کو اپنے مخصوص رنگ میں رنگ دیا۔حرمین شریفین کی حاضری بھی متعدد بار نصیب ہوئی۔

۲۰۰۰ء میں فالج کے بعد بھی مختلف ممالک کے دینی اسفار فرمائے۔ تین بار سعودی عرب تشریف لے گئے اور تین عمرے ادا فرمائے، آخری عمرے کا سفرنہایت یادگار تھا۔ جنوبی افریقہ کے دوسفر فرمائے۔ ۲۰۰۴ء ہی میں جنوبی افریقہ سے بوٹسوانا، زمبیا اور موزنبیق کا سفر فرمایا، بنگلہ دیش کے دوسفر اور برطانیہ کا ایک سفر فرمایا اور اندرون ملک کئی شہروں کا سفر فرمایا اور تمام مقامات پر اپنی مجالس ارشاد سے مستفیض فرماتے رہے۔ یہ شیخنا و جدناو مولاناکی دینی تڑپ اور غیر معمولی قوتِ ارادی کا نتیجہ تھا ورنہ اس حالت میں سفر کرنا اور اپنے ارشادات سے مستفیض فرمانا جبکہ بولنے میں بہت تعب ہوتا تھا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی ؎

پھرتا ہوں دل میں درد کا نشتر لیے ہوئے

صحرا و چمن دونوں کو مضطر کیے ہوئے

پھرتا ہوں دل میں یار کو مہماں کیے ہوئے

روئے زمیں کو کُوچۂ جاناں کیے ہوئے

اک قلبِ شکستہ کے اور آہ و فغاں کے ساتھ

میں چل رہا ہوں مشعلِ سنت لیے ہوئے

۲۰۰۰ء میں فالج کا حملہ ہوا، کچھ دن بعد طبیعت سنبھل گئی، زبان سے فالج کا اثر دور ہوگیا اور قطب الارشاد نے اپنے بیانات اور ارشادات کاسلسلہ دوبارہ شروع کردیابلکہ پہلے تو ہفتے میں دومجالس جمعہ اور پیر کو ہوتی تھیں اب دن میں تین تین مجالس روزانہ ہونے لگیں، کچھ عرصہ بعد پھر طبیعت ناساز ہوگئی پھر یہ سلسلہ سانحۂ وفات تک چلتا رہا،کبھی طبیعت کچھ بہتر ہوجاتی کبھی بہت زیادہ ناساز ہوجاتی ،آخر میں سینے میں بلغم بہت بڑھ گیا، جس سے سانس بند ہونے کے جلد جلد اس قدرشدت سے دورے پڑنے لگے کہ تشویشناک صورت حال پیدا ہوگئی ۔تقریباًتین ماہ طبیعت مسلسل ناساز رہنے کے بعد ۲۳رجب المرجب ۱۴۳۴ مطابق ۲جون ۲۰۱۳ ءبعد ازمغرب ۷بج کر۴۰ منٹ پر سورج اپنے ساتھ اس آسمانِ علم وعمل اورعشق ومحبت کے آفتاب کو بھی لے کر غروب ہوگیا۔

شیخنا و جدناو مولاناکو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں محمد اظہر، محمد اطہر، محمد مظہر اور ایک بیٹی کی نعمت سے نوازاتھا، محمداظہر اور محمد اطہر کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا، ایک صاحبزادے والدگرامی، ذی قدر، حلیم الامت حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم (خلیفہ مجازِ بیعت محی السنہ حضرت اقدس مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ) جودادا رحمۃ اللہ علیہ کے نائب اور قائم مقام اور خانقاہ امدادیہ اشرفیہ کے روح رواں ہیں ،ایک صاحبزادی احقر کی پھوپھی صاحبہ ہیں۔ (اللہ پاک ان دونوں کا سایہ اہلِ خاندان، متعلقین و محبین پر تا دیر صحت وعافیت اور مقبول دینی خدمات کے ساتھ قائم و دائم رکھیں، آمین)چارپوتے، دوپوتیاں اور چارنواسے ایک نواسی بقید حیات ہیں۔ دادا رحمۃ اللہ علیہ نےاپنےسب پوتوں کوحافظ وعالم بنایا۔ دادا رحمۃ اللہ علیہ نہایت درد سے آبدیدہ ہوکر اکثر یہ دُعا فرماتے تھے کہ یا اللہ میری اولاد میں قیامت تک سب کو اللہ والا بنائیے ، کیوں کہ آپ کا فاسق دیکھنے کا میرے دل میں تحمل نہیں۔

حسب وصیت، ۹ بجے والد گرامی، ذی قدر، حلیم الامت حضرت اقدس مولاناشاہ حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم نے رقت کے ساتھ درد بھری آواز میں نماز جنازہ پڑھائی، سندھ بلوچ میں مسجد امداد کے ساتھ ہی شیخناوجدناومولانا کا ذاتی قبرستان ہے جوانہوں نے اپنے اور اپنی اولادکے لیے مخصوص کیا تھا۔ اس میں داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ کی طرف قبر مبارک تیار تھی،مولانا محمد ابراہیم صاحب اور مولانا محمد اسحاق صاحب سلمہٗ قبر میں اترے اوراس فقیر اور دیگر اعزہ اور خدام نے شیخناوجدناومولانا کا جسد خاکی ان دونوں کے سپرد کیا انہوں اپنے پیارے، نہایت شفیق اور محبت کرنے والے دادا کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں سنت کے مطابق دائیں ہاتھ کی طرف کروٹ دلاکر سینہ مبارک اور چہرہ قبلہ رو کرکےلٹایا۔تقریباً ساڑھے دس بجے صبح تدفین مکمل ہوئی اور قبرستان کا دروازہ کھول دیا گیا اورلوگ جوق در جوق اشکبار آنکھوں سے ایصالِ ثواب کر کے رخصت ہوجاتے اور دوسرے حضرات آجاتے۔ شیخناوجدناومولانانے دردِ محبت کی جو میراث اپنی تصانیف و تالیفات کی شکل میں چھوڑی ہیں، ان شاء اللہ قیامت تک اُمت اس کو پڑھ کر اشکبار ہوگی کہ آہ! ایسا تابندہ آفتاب ِ محبت آفاقِ عالم پر جلوہ گر تھا۔ شیخناوجدناومولانا نے اپنے شعر میں اس حقیقت کو خود بیان فرمایا ہے ؎

بہت روئیں گے کر کے یاد اہلِ مے کدہ مجھ کو

شرابِ دردِ دل پی کر ہمارے جام و مینا سے

شیخنا و جدنا و مولانا مشیت ایزدی سے آج ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن اُن کےبابرکت وجود کی خوشبو، ان کی پُرنور مجالس کی خوشبو،ان کی اَن گنت دعاؤں اور بے شمار اذکار وتسبیحات کی خوشبو خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ کے در و دیوار میں اور اُس کے ماحول میں ایسی رچی بسی ہے جیسےشیخناوجدناومولانا یہیں تشریف فرما ہیں۔ بقول جگر مراد آبادی ؎

وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی نظر میں اب تک سما رہے ہیں

یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں یہ آرہے ہیں وہ جارہے ہیں

ہمیں رحمتِ باری تعالیٰ سے آج بھی اُمید واثق ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جیسے پوری دنیا میں مقاصدِ بعثت کی محنت پھیلی ہے اور اِسلام کو روز افزوں فروغ حاصل ہوا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی برکت سے شیخنا و جدنا و مولانا کے انتقال کے بعد بھی تزکیہ و سلوک اور مقاصدِ بعثت نبوی کی محنت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگا جس کے آثار محسوس ہونے لگے ہیں۔

شیخنا و جدنا و مولانا کے سینۂ مبارک میں اللہ تعالیٰ کے عشق و محبت کی جو آگ بھری ہوئی تھی وہ انہیں کسی پل چین سے نہیں بیٹھنے دیتی تھی، ان کی یہ شدید خواہش تھی کہ ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کی اس معرفت ومحبت کو حاصل کرلے، ہرلمحۂ حیات کو اللہ تعالیٰ کی مرضی پرفداکرے، ایک لمحۂ حیات بھی اللہ کوناراض نہ کرے اور اولیاء صدیقین کی خطِ انتہا تک پہنچ جائے۔ اسی لیے وہ فرماتے تھے کہ میری ستّر سالہ زندگی کا نچوڑ ہے کہ جو شخص چار اعمال کرلے وہ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کا دوست بن جائے گا۔ ایک یہ کہ ایک مٹھی داڑھی رکھ لے، دوسرا یہ کہ لباس ٹخنوں سے اوپر رکھے، تیسرا یہ کہ ہر حسین شکل سے نظر کی حفاظت کرے اور چوتھا یہ کہ دل کو بھی ان حسینوں سے بچائے۔ اور ان چار باتوں پر عمل کی توفیق صرف اہل اللہ کی صحبتوں سے نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ یہ دعا مانگا کرتے تھے ؎

مری زندگی کا حاصل میری زیست کا سہارا

ترے عاشقوں میں جینا تیرے عاشقوں میں مرنا

(حضرت مولانا) حکیم محمد اسماعیل صاحب (دامتِ برکاتہم)

نبیرہ وخلیفہ مُجاز بیعت حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجددزمانہ

حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب قدس سرہ العزیز

Visits: 76

Back to top button