تعارف

خانقاہ اشرفیہ اختریہ 

 

نقش قدم نبی ﷺ کے ہیں جنت کے راستے

اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

 

بلاشبہ عالم انسانیت کی فلاح و کامرانی کا راز حضور اکرم سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی و عالمگیر تعلیمات کو صحیح معنوں میں سمجھ کر اس پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے۔مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے سائے میں ہمیشہ عروج اور انہیں پس پشت ڈال کر ہمیشہ زوال دیکھا۔ اگر غور کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات عملی نقطۂ نظر سے دواقسام پر مشتمل ہیں:

۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے پہلے حصہ کا تعلق ظاہری اعضاء و جوارح، اعضائے انسانی کے افعال و حرکات اور اُمورِ محسوسہ سے ہے، جیسے قیام، تلاوت، رُکوع، سجود، تسبیح، دعوت، جہاد، آداب، معاملات اور معاشرت وغیرہ اور یہی حصہ دین کا اصل قالب اور اسلام کا عملی نظام ہے۔

۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے دُوسرے حصہ کا تعلق باطنی کیفیات سے ہے، جن کو ہم اِخلاص و احتساب، صبر وتوکل، زُہد واِستغناء، ایثار و سخاوت، رُوحانی کیفیات، اصلاح اخلاق اورتزکیۂ نفس سے تعبیر کرسکتے ہیں، یہ باطنی کیفیات ظاہری اعمال کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں قیام و قعود ہو یا رُکوع و سجود، خانگی معاملات ہوں یا دعوت و تذکیر کے حالات، گھر کا ماحول ہو یا میدانِ جہاد، یہ باطنی کیفیات اور قلبی صفات ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ ان باطنی کیفیات کی ظاہری اعمال کے لیے وہی حیثیت ہے جو جسم انسانی کے لیے رُوح کی اور ظاہری ڈھانچے کے مقابلے میں دِل کی۔ وہ علم جو حصہ اوّل کی تعلیمات پر مشتمل ہے اسے فقہِ ظاہر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ علم جو دُوسرے حصے کی تعلیمات پر مشتمل ہے اسے فقہِ باطن کہا جاتا ہے۔

خیرالقرون ہی سے جہاں ظاہری اعمال پر محنت کی گئی وہیں باطنی اعمال کی اصلاح کا بھی نہ صرف مکمل انتظام کیا گیا بلکہ اس کے لئے خانقاہوں کاقیام عمل میں آیا اور تزکیہ و اصلاح کا جو کام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مسجدِ نبوی میں کیا کرتے تھے، ائمہ مجتہدین اور اکابر نے انہیں خانقاہوں میں انجام دیا۔

 

خانقاہ کے معنیٰ اور خانقاہ کے قیام کا مقصد

 

خانقاہ فارسی زبان کا لفظ ہے اسکے معنیٰ غیاث اللغات میں لکھے ہیں’’جائے بودن درویشاں‘‘بس جہاں چند اللہ والے درویش بیٹھ جائیں بس وہی خانقاہ ہے

خانقاہ کے مقصد کے حوالے سے عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خانقاہ یُزَکِّیْہِمْ کا مظہر ہے۔ خانقاہ وہ جگہ ہے جہاں ’’جاہ‘‘ کا ’’جیم‘‘ اور ’’باہ‘‘ کی ’’باء‘‘ نکالی جائے اور خالص ’’آہ‘‘ رہ جائے کیونکہ آہ اور اللہ میں کوئی فاصلہ نہیں ہے، ہماری آہ کو اللہ نے اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ جہاں آہ کو جاہ اور باہ سے پاک کیا جائے یعنی جہاں جاہ و تکبر مٹایا جائے اور باہ و شہوت، بد نظری اور عشق غیر اللہ سے دل کو پاک کیا جائے اس کا نام ’’خانقاہ‘‘ ہے۔ خانقاہ حلوہ کھانے کا نام نہیں ہے جیسا کہ عام لوگ سمجھتے ہیں۔ خانقاہ کی تعریف پر میرا شعر ہے ؎

 

اہلِ دل کے دل سے نکلے آہ آہ

بس وہی اخترؔ ہے اصلی خانقاہ

 

تزکیہ کے معنیٰ اور اہمیت

 

عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ   نے ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مدارس سے اور تبلیغ سے اعمال کا وجود ملتا ہے اور خانقاہوں سے ببرکتِ اخلاص اعمال کا قبول ملتا ہے، تینوں چیزیں ضروری ہیں، مدارس بھی ضروری ہیں، تبلیغ بھی ضروری ہے اور تزکیہ بھی ضروری ہے۔ تزکیۂ نفس شعبۂ نبوت ہے۔ بعض نادان لوگ کہتے ہیں کہ تزکیہ ولیوں والا کام ہے۔ میں نے کہا  یُزَکِّیْھِمْ  ولیوں والا کام ہے؟ مقاصدِ نبوت میں سے ایک اہم مقصد تزکیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا  یُزَکِّیْھِمْ ۔ ہمارا نبی تزکیہ کرتا ہے اور تزکیہ سے مراد طہارتِ قلب، طہارتِ نفس اور طہارتِ بدن ہے۔ اس لیے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں یُزَکِّیْھِمْ کی تفسیر کی ہے أَیْ یُطَھِّرُ قُلُوْبَھُمْ وَ نُفُوْسَھُمْ وَ أَبْدَانَھُم۔ قُلُوْبَھُمْ مِنَ الْاِشْتِغَالِ بِغَیْرِ اللہِ وَ نُفُوْسَھُمْ مِنَ الْاَخْلَاقِ الرَّذِیْلَۃِ وَ أَبْدَانَھُمْ مِنَ الْأَنْجَاسِ وَ الْاَعْمَالِ الْقَبِیْحَۃِ ۔ یعنی نبی پاک کرتا ہے صحابہ کے قلوب کو اور ان کے نفوس کو اور ان کے ابدان کو۔ قلوب کو پاک کرتا ہے غیر اللہ کے اشتغال سے اور نفوس کو پاک کرتا ہے اخلاقِ رذیلہ سے اور اجسام کو پاک کرتا ہے نجاستوں سے اور بُرے اعمال سے۔ یہ تزکیہ کا حاصل ہے، جب قلب مُزَکِّی ہوتا ہے، نفس مُزَکِّی ہوتا ہے اور بدن مُزَکِّی ہوتا ہے تو پھر اللہ کے قرب کی خوشبو زیادہ محسوس ہوتی ہے جیسے نہا دھو کر خالص عود لگایا جائے تو عود کی خوشبو محسوس ہوتی ہے اور پسینے کی بدبو اور غلاظت اور نجاست پر عود لگاؤ تو خوشبو کہاں محسوس ہوگی۔ایسے ہی جو لوگ گناہ نہیں چھوڑتے،نفس کا تزکیہ نہیں کراتے، ان کو اللہ کے قرب کی لذت کا صحیح اِدراک نہیں ہوتا۔ اورتزکیہ کے بغیر اعمال کا قبول ہی خطرہ میں ہے۔ جیسا کہ حدیثِ ریاء میں ہے کہ ایک قاری کو، ایک مجاہد کو اور ایک غنی کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا، کیونکہ بغیر تزکیہ کے اخلاص نہیں مل سکتا، اسی لیے تزکیہ فرض ہے اور تزکیہ فعل متعدی ہے۔ پس مُزَکِّی ہونے کے لیے ایک مُزکّیٰ کی ضرورت ہے لہٰذا تزکیہ کے لیے کسی شیخ کامل سے تعلق ضروری ہے۔

 

مدارس ہمیں عالم منزل بناتے ہیں، خانقاہیں اور اللہ والے ہمیں بالغ منزل بناتے ہیں

 

عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اللہ ملتا ہے اللہ والوں سے، اگر یہ بات نہ ہوتی تو مولانا قاسم نانوتوی، مولا نا گنگوہی اور بڑے بڑے علماء و مشایخ کے سامنے زانوئے ادب طے نہ کرتے۔ مشکوٰۃ شریف کے شارح شیخ عبد الحق دہلوی بھی کتراتے کتراتے پھرتے تھے، بیعت نہیں ہوتے تھے، پھر ان کے والد نے ان کو خط لکھا، حیاتِ عبد الحق میں دیکھ لو، وہ میں نے خود پڑھا ہے، لکھا تھا ’’پسرم ملائے خشک و ناہموار نباشی‘‘ اے شیخ عبدالحق، محدث اور مشکوٰۃ شریف کی شرح لکھنے والے خشک ملا مت رہ، ناہموار مت رہ، جا کسی اللہ والے کو پکڑ اور اس کی صحبت اختیار کر، اللہ کے عاشقوں سے عاشق بنتے ہیں، مدارس ہمیں عالم منزل بناتے ہیں، خانقاہیں اور اللہ والے ہمیں بالغِ منزل بناتے ہیں، علمِ منزل اور ہے اور بلوغِ منزل اور ہے، علمِ منزل تو یہ ہے کہ راستہ دِکھا دیا کہ بھئی یہاں سے ایسے چلے جائیں، وہ فلاں گاؤں نظر آرہا ہے، یہ علم ہے مگر ہاتھ پکڑ کر اس گاؤں تک پہنچا دے یہ بلوغِ منزل ہے، علم منزل تو مدارس سے حاصل کرلو مگر بالغ منزل وہی ہوگا جو کسی بالغ منزل کا ہاتھ پکڑے۔

 

خانقاہ اشرفیہ اختریہ کا قیام

 

عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ  1997 میں بھاول نگر تشریف لائے اور خانقاہ اشرفیہ اختریہ کا قیام عمل پزیر ہوا ۔ جس کے بعد اللہ تعالی کے فضل سے سالکین کی روحانی تعلیم و تربیت ، اسلامی اخلاقیات اور دینی تعلیم و تربیت کا کام بڑے پیمانے پر سر انجام دیا جارہا ہے۔

عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کی خصوصی توجہ اور دعائوں کے ساتھ روحانی  پاکیزگی کا ایک عظیم کام ، اللہ کی محبت کی تعلیم  اور اخلاقیات ، درس و تدریس کا کام  بین الاقوامی سطح پر بھی حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کر رہے ہیں۔

حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ نے (ملتان ، پاکستان) میں خانقاہ جلیلیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ  آسٹریلیا ، انگلینڈ ، دبئی ، زامبیا اور بنگلہ دیش میں  دارالاصلاح انٹرنیشنل   کے سربراہ ہیں جہاں اسلامی تعلیمات  ( اللہ کی محبت ، اخلاقیات اور روحانی طہارت کی تعلیم ) کا کام مستقل بنیادوں پر انجام دیا جارہا ہے۔

اللہ تعالی حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کو ہر طرح کی برائیوں اور ناپاک ارادوں سے محفوظ رکھے۔ اللہ تعالی انھیں صحت اور عافیت کے ساتھ 130 سال کی لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین ۔ اللہ عزوجل عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کے  فیض  کو حضرت والا کے ذریعہ پوری دنیا میں عام کرے۔ آمین

سب سے اوپر جانے کے لیے بٹن